سندھ اور بلوچستان میں حالیہ شدید ترین لگاتار 48 گھنٹوں سے ہونے والی مون سون کی بارشوں سے تباہی و بربادی اور نقصانات کی جو المناک داستانیں سامنے آئی ہیں وہ رقم کرنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ ایسے ایسے افسوسناک اور ہولناک انسانی المیوں نے جنم لیا ہے جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ اس ساری تباہی و بربادی کے پس منظر میں انتظامی اور حکومتی نااہلی کو کسی طور پر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سرکاری طور پر سندھ میں تاحال شدید ترین بارشوں سے 26 انسانی جانوں کے اتلاف کا اعتراف کیا گیا ہے۔ لیکن درحقیقت 70 سے زائد مرد وخواتین اور بچے مکانات کی چھت گرنے یا سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہزاروں مکانات گر چکے ہیں اور لاکھوں ایکڑ رقبے پر محیط چاول، کپاس، گندم سمیت تیار دیگر قیمتی فصلیں تباہ ہونے سے آبادگاروں کو کنگال اور بدحال کرگئی ہیں۔ حکومت سندھ نے بظاہر فیس سیونگ کے طور پر اور تنقید سے بچنے کے لیے صوبہ میں رین ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے 9 متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے اور متاثرہ اضلاع کے ہر ڈی سی کو 30 لاکھ روپے کی امدادی رقم متاثرین بارش و سیلاب کو دینے کے لیے جاری کردی ہے لیکن یہ رقم بہت تھوڑی اور بہ قدر اشک بلبل ہے جبکہ تباہی و بربادی اور نقصانات کا تخمینہ بے حد و بے حساب ہے جو اربوں روپے مبنی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جانی اور مالی نقصانات کا سلسلہ بڑی شدت اور تیزی سے جاری ہے کیوں کہ شدید ترین بارش رکنے یا تھمنے کا نام تک نہیں لے رہی ہے۔
سندھ کے متاثرہ تمام اضلاع میں نظام زندگی عملاً کئی روز سے یکسر معطل ہوچکا ہے۔ روڈ، راستے، گلیاں اور محلے شدید ترین ہونے والی بارش کے باعث ندی اور نالوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کا زمینی رابطہ سڑک اور بذریعہ ریل گاڑی معطل ہوچکا ہے، گوٹھوں کے گوٹھ زیر آب آجانے کی وجہ سے متاثرہ مقامی بے یارو مددگار ہزاروں کی تعداد میں مرد وخواتین اور بچے کھلے آسمان تلے اور کہیں کہیں اپنے عزیزو اقربا یا سرکاری عمارات میں ٹھیرنے پر مجبور ہیں۔ بے سروسامانی، لاچاری اور بے بسی کے آثار ہر چہرے سے ہویدا ہیں۔ مستقبل کے بھیانک خدشات دامن گیر ہیں کیوں کہ وہ اس امر سے اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ ہمارے نااہل، ناکارہ اور بے حس حکمراں ہمیں صرف زبانی کلامی جھوٹی تسلیوں اور دعوئوں ہی سے بہلاتے رہیں گے، عملاً ہمارے لیے کوئی بھی کچھ نہیں کرے گا۔ البتہ ایسے میں جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن اپنے محدود وسائل کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ بھرپور طور سے ہر متاثرہ سرگرم عمل ہیں۔ سندھ بھر میں جماعت اسلامی سندھ اور الخدمت کے زیراہتمام متاثرین بارش اور سیلاب میں خیمے، امدادی سامان ، ادویات ، کچا پکا راشن اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ امیر صوبہ سندھ محمد حسین محنتی نے سیکرٹری اطلاعات مجاہد چنا کے ساتھ کوہستان، جام شورو، جوہی ضلع دادو، شہداد پور کاچھو، بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سمیت دیگر مقامات کا دورہ کیا اور لگ بھگ 5کروڑ روپے کی اشیاء اور پکا پکایا راشن تقسیم کیا۔ ان کے ساتھ نائب امیر بلوچستان مولانا اسماعیل مینگل، امیر ضلع لسبیلہ عبدالمالک رونجھو، الخدمت بلوچستان کے صدر جمیل کرد، الخدمت سندھ کے جنرل سیکرٹری خیر محمد تنیو اور دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔
حالیہ شدید بارشوں سے سندھ، بلوچستان سمیت ملک بھر کے انفرا اسٹرکچر کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ خدشہ ہے کہ صدیوں تک نہیں ہوسکے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق شدید بارشوں سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ہے اور صوبہ سندھ بھی شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے 15 لاکھ خاندانوں کے بے گھر اور متاثر ہونے کا اعتراف سرکاری طورپر کیا گیا ہے۔ درآں حالیکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت نے ہر متاثرہ خاندان کو 25 ہزار روپے کی جو نقد رقم بطور امداد دینے کا اعلان کیا ہے وہ بھی ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے مترادف ہے اور اللہ کرے مذکورہ اعلان کردہ مختص کی گئی رقم بھی اصل متاثرین کے ہاتھوں تک پہنچ پائے اور کہیں راستہ ہی میں سرکاری اہلکار اسے باہم خورد برد نہ کرلیں۔ ماضی کا سارا ریکارڈ تو ایسے ہی خدشات کا گواہ ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کو جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں، ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ 5 ہزار گھر مکمل طور پر اور 29 ہزار نصف تباہ، جب کہ ایک لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں دیے گئے مذکورہ اعداد و شمار مسلسل کئی روز سے جاری شدید بارشوں کے حالیہ سلسلے سے دو دن پہلے کے ہیں جب نسبتاً بارش کم برسی تھی۔ مسلسل اور متواتر برسننے والی شدید بارش سے جو 48 گھنٹوں سے جاری ہے جیکب آباد، شکارپور، سکھر، لاڑکانہ، کندھ کوٹ، کشمور، خیرپور، بدین، ٹھٹھہ، دادو، جوہی، میرپور خاص، سجاول، عمر کوٹ سمیت دیگر سندھ کے علاقوں میں سیلاب کی سی صورت حال ہے۔ بیش تر متاثرہ علاقوں میں آمدو رفت کے لیے کشتیاں تک چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ اور محکمہ موسمیات بارشوں کے ایک نئے سلسلے کی پیش گوئی بھی کررہا ہے جس سے اہل سندھ اور بلوچستان شدید پریشانی اور اضطراب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اتنی تشویشناک اور پریشان کن صورت حال میں اہل سندھ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی وائرل کردہ اس ویڈیو کو دیکھ کر دنگ اور ششدر رہ گئے ہیں جس میں موصوف موسم برسات سے محظوظ ہونے کے لیے اپنے مصاحبین کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے خوش و خرم دکھائی دے رہے ہیں۔ منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو کی وجہ سے وزیراعلیٰ موصوف شدید ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں کہ انہیں متاثرین بارش اور سیلاب کے مسائل، مصائب اور تکالیف سے کچھ علاقہ نہیں ہے۔
اس آزمائش کے موقع پر تمام منتخب عوامی نمائندوں کو اپنے اپنے حلقوں میں رہ کر اپنے اہل علاقہ کی خدمت میں پیش پیش ہونا چاہیے لیکن وہ حسب سابق و روایت گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہیں۔
محکمہ موسمیات نے امسال پہلے ہی سے واضح طور پر خبردار کر دیا تھا کہ امسال ماضی کے مقابلے میں سندھ میں بہت زیادہ برسات ہوگی اور شہری علاقوں میں سیلاب آنے کی سی صورت حال ہوگی۔ اہل سندھ اس لیے بجاطور پر یہ توقع کررہے تھے کہ حکومت سندھ 2010ء میں دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں اور 2011ء میں شدید بارشوں سے ہونے والی سیلابی کیفیت کی سی جنم لینے والی بربادیوں کے تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضرور ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے گی جس سے عوام کو کم سے کم نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جب شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے باعث سندھ بھر میں جس طرح سے ہر شخص تباہی و بربادی دیکھنے کو ملی ہے اس سے یہ ثبوت مل گیا ہے کہ ہمارے حکمران عوامی مسائل اور تکالیف کو پیشگی طور پر روکنے کے لیے کسی نوع کی کوئی منصوبہ بندی کرنے میں کوئی دل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی غرض ہے۔ شدید ترین بارشوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اس برسات نے سندھ میں نظام زندگی کو مفلوج بنا ڈالا ہے۔ مزدور، محنت کش اور دہاڑی دار طبقہ روزگار سے محروم ہوچکا ہے۔ ان کے گھروں میں فاقہ کشی کا عالم ہے۔ بازاروں، راستوں، سڑکوں، گلیوں، مکانوں اور دکانوں میں ہر جگہ کئی کئی فٹ نالیوں اور بارش کا گندا پانی کھڑا ہے۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے مطلب یہ ہے کہ سچ مچ قیامت صغریٰ کا سا المناک منظر ہے۔
سندھ جو ایک زرعی خطہ ہے اور جہاں پر قلت آب کی وجہ سے پہلے ہی 30 فی صد سے کم فصلیں ہوئی تھیں اب حالیہ شدید بارشوں سے تیار کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوچکی ہیں اور مستقبل میں خدا نخواستہ قحط سالی جیسی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے، کیوں کہ ماہرین خوراک اور زراعت اس بارے میں برملا طور پر اپنے خدشات کا اظہار سندھ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالیہ شدید بارشوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کس طرح سے ہوسکے گا اس حوالے سے بھی اہل سندھ پریشان ہیں۔ نہروں میں پڑنے والے شگافوں کی وجہ سے سیلابی ریلوں نے جس طرح سے سیکڑوں گوٹھوں، دیہاتوں اور قصبات کو ملیامیٹ اور لاکھوں افراد کو بے گھر اور دربدر کیا ہے وہ اپنے اپنے گھروں کو کب لوٹیں گے اور ایک معمول کی زندگی گزار سکیں گے، کسی کو کچھ بھی اندازہ نہیں ہے ان گنت خدشات پھن پھیلائے کھڑے ہیں، جن کی وجہ سے متاثرہ افراد اور اہل سندھ مضطرب اور پریشان ہیں۔ ہمارے ہاں ہر دور میں بارشیں بجائے رحمت کے جس طرح سے زحمت بن جاتی ہیں اس کی ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ اور بیوروکریسی ہے۔ وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر سیل صرف آفات ارضی و سماوی کے لیے کی گئی پیش گوئیوں تک محدود ہیں۔ ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ پیشگی طور پر ہائی الرٹ جاری کرنے کے باوجود حکومت کے متعلقہ ذمے دار محکمے نہروں، سم نالوں کی صفائی کرواتے ہیں اور نہ ہی پشتوں کی تعمیر و مرمت کے کام کی ذمے داری سے ہی عمدہ برار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے مختص کردہ اربوں روپے کا بجٹ ہر سال کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ اہل سندھ کریں بھی تو کیا کہ ’’زمین سخت ہے اور آسمان دور ہے‘‘۔