ہم نے بچپن سے سن رکھا تھا کہ پاکستان بنانے میں نواب صاحب (نواب حمید اللہ خان آف بھوپال) نے کوئی بڑا کام کیا ہے مگر اس وقت ہمیں شعور نہ تھا پھر جب کاغذ اور قلم سے ناتا جڑا تو ایک جستجو سی تھی کہ معلوم کیا جائے کہ ایسی کیا خاص بات تھی مگر اب تک وہ آبائو اجداد دار فانی سے کوچ کرچکے تھے مگر ایک چبھن سی تھی کہ اِک ٹیس بار بار اُٹھتی تھی پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن جب ہم اپنے دفتر پہنچے تو اپنی ٹیبل پر ایک انگریزی رسالہ کھلا ہوا پایا اور ایک مضمون نمایاں تھا جس کا عنوان تھا ’’My Mother‘‘ اور تحریر تھی شہریار خان کی جو نئی نسل کے لیے پاکستان کرکٹ بوڑد کے چیئرمین کی حیثیت سے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ شہریار خان نے یہ مضمون اپنی والدہ محترمہ عابدہ سلطان (ولی عہد ریاست بھوپال) کی وفات پر ان کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنے کے لیے تحریر کیا تھا۔ یہاں ہم اپنے قارئین کی معلومات کے لیے عرض کریں کہ شہریار خان نواب بھوپال حمید خان کی صاحبزادی شہزادی عابدہ سلطان (جو کہ ولی عہد ریاست بھوپال تھیں) کے اکلوتے فرزند ہیں اور اگر اپنے نانا کے بلاوے پر ہی واپس بھوپال چلے جاتے تو آج نواب آف بھوپال ہوتے مگر انہوں نے والدہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اقتدار چھوڑ دیا اور والدہ کے ساتھ ساتھ دل میں پاکستان کی محبت کو بسائے رکھا۔
اس مضمون کی مدد سے میں نے ایک مضمون بعنوان ’’تاریخ کا ایک گمشدہ ورق‘‘ لکھا جو مقامی روزنامے میں شائع ہوا۔ اس آرٹیکل کی کاپیاں اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے فوٹو اسٹیٹ کی دکان جا پہنچے۔ فوٹو کاپی کرانے کے بعد دکاندار نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور ایک نظر میں پورا کالم پڑھنے کے بعد ہم سے مخاطب ہوا۔ میاں! تم ایک ورق کی بات کرتے ہو یہاں تو کئی صفحات غائب کردیے گئے ہیں بلکہ تاریخ ہی تبدیل کردی گئی۔ موصوف لب ولہجہ سے بھوپالی ہی معلوم دیتے تھے پھر ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمانے لگے، اچھا پہلے یہ بتائو کہ نواب صاحب کی کس دلیل کے سامنے گاندھی جی دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے، معلوم ہے؟ ہم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دریافت کیا تو بولے دیگر کانگریسی رہنمائوں کی طرح گاندھی جی بھی دو قومی نظریے کے مخالف تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم بستی ہے اور وہ ہے ہندوستانی۔ نواب صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ ہندو اور مسلم ایک نظریہ نہیں ہوسکتا، ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمان اس کی قربانی کرتے ہیں، پھر نظریہ ایک کیسے ہوا؟ گاندھی جی کے پاس اس دلیل کا کوئی جواب نہ تھا اور انہوں نے خاموشی سے دو قومی نظریے کے مسودے پر دستخط کردیے۔ پھر کیا ہوا؟ برابر میں بیٹھے ایک اور بزرگوار نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ نواب صاحب نے یہ دستخط ایک کانگریسی جلسے کے دوران کرائے۔ نواب صاحب اسٹیج پر آئے اور گاندھی جی کے کان میں کچھ کہا اور دونوں اسٹیج کے پیچھے چلے گئے بعد میں نواب صاحب اپنے ہاتھ میں کاغذ لہراتے ہوئے اسٹیج سے نیچے اُتر گئے۔ دیگر کانگریسی رہنمائوں کو تشویش ہوئی اور انہوں نے گاندھی سے دریافت کیا تو گاندھی جی نے ہند کی تقسیم کا اعادہ کیا۔ میاں! پھر کیا ہوا (باتوں سے یہ حضرت بھی بھوپالی ہی لگتے تھے بعد میں پتا چلا کہ یہ اہل بھوپال کی بیٹھک ہے) موصوف نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا بس پھر کیا تھا نواب صاحب تو وہاں سے ہاتھ ہلاتے ہوئے چل دیے مگر کانگریسی لیڈروں میں ہل چل مچ گئی اور نواب صاحب کی تلاش میں کارندے دوڑا دیے۔
بس اڈوں اور ائرپورٹ پر کارندے گدھوں کی طرح منڈلانے لگے، شہر سے باہر جانے والے راستوں کی نگرانی تھی کہ کسی طرح نواب صاحب سے دستخط شدہ مسودہ حاصل کرلیا جائے مگر نواب صاحب جو ایک کہنہ مشق پائلٹ بھی تھے ایک پائلٹ کی وردی میں ائرپورٹ آئے اور اُڑان بھرتے ہوئے بمبئی جناح صاحب کے دربار میں حاضر ہوئے۔ اگلے دن گاندھی جی کے مان جانے کی خبر تمام ہی اخبارات میں شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی اور گاندھی جی پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اس خبر کی تردید کریں مگر گاندھی جی نے انکار کرتے ہوئے اسے اپنی سیاسی غلطی تسلیم کیا۔
آخر میں شہریار خان اپنی والدہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں ’’میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ بڑے لوگ اپنی غلطی کا اعتراف بھی بڑے دل سے کرتے ہیں‘‘۔ دراصل گاندھی جی کے اعتراف ہی نے قیام پاکستان کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن گاندھی جی کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ یعنی جان سے جانا پڑا۔ نواب حمید اللہ خان کا یہ کارنامہ تاریخ کے حوالوں سے غائب جب کہ نواب صاحب کی خدمات بے لوث تھیں کہ وہ جانتے تھے کہ جس پاکستان کے قیام کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں خود ان کی اپنی ریاست ’’ریاست بھوپال‘‘ اس کا حصہ نہیں بن سکتی۔ جب ملک و ملت کی خاطر جان کا نذرانہ دینے والے شہید ملت خان لیاقت علی خان کی برسی برس ہا برس سے آتی ہے اور گزر جاتی ہے جب کہ سیاسی طور پر جہاں سے گزر جانے والے سیاستدانوں کی برسی بڑی شان و شوکت اور شور شرابے کے ساتھ منائی جاتی ہے بلکہ ان کے یوم پیدائش پر کیک بھی کاٹے جاتے ہیں اور بے چارے شہید ملت اپنے قائد کے زیر سایہ مدفون پرنم آنکھوں سے یہ منظر صرف دیکھتے رہتے ہیں تو پھر نواب حمید اللہ خان کا تو نام ہی تاریخ سے گمشدہ ہے۔