ڈاکوئوں کا مغویوں سے غیر انسانی سلوک

526

سندھ میں امن وامان کی صورت حال کسی دور میں بھی مثالی یا قابل رشک نہیں رہی۔ ہر دور حکومت میں خواہ وہ فوجی ہو یا جمہوری، اہل سندھ کی جان، مال، عزت اور آبرو جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں دائو پر لگی رہی ہے۔ اس میں قطعی کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ سندھ میں بظاہر حکومت تو ہے لیکن اس کی کوئی رٹ موجود نہیں۔ ہر سرکاری محکمہ میں بدعنوانی کا راج ہے۔ اہل سندھ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا تجربہ اور مشاہدہ ہر روز ہی کرتے ہیں۔ انہیں ستانے والے تو بہت ہیں لیکن انہیں مسائل اور مصائب کے انبار سے نکالنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ ایک طرف شدید بارشوں سے بڑے پیمانے پر تیار اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب ضلع خیرپور، سکھر میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر محیط کھجور کے درختوں پر لگی کھجوریں بے وقت کی بارشوں سے ضائع ہوگئی ہیں اور ہزاروں ٹن کھجوریں ردی کا مال بننے سے باغات کے مالکان نے ٹھیکہ دار اور مزدور بدحال اور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ سندھی نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا پر ان کی آہ و فغاں دیکھی نہیں جاتی۔ متاثرہ افراد کی داد رسی کرنے والا اور ان کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ دوسری جانب خدشہ ہے کہ پانی کی قلت اور موسمی عوامل کی بنا پر گندم کی پیداوار امسال کم ہوگی۔ جس سے آٹے کا شدید بحران جنم لے گا۔ تاہم حکومت سندھ، محکمہ زراعت اور دیگر متعلقہ سرکاری ادارے ’’حال مست اور کھال مست‘‘ کی سی حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کو مستقبل قریب میں متوقع درپیش سنگین صورت حال کا ادراک ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ذرہ برابر پروا۔
کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ محض مناسب اور موثر پلاننگ نہ ہونے سے ہر سال ایک طرف برسنے والی شدید بارشیں جہاں عوام کے لیے باعث زحمت بن جاتی ہیں وہیں سندھ میں بڑے رقبہ پر کھڑی فصلیں محض قلت آب کی وجہ سے جل جاتی ہیں اور عین آخری مرحلے پر بروقت پانی کی عدم دستیابی ہاریوں، کاشت کاروں اور کسانوں کو آئندہ فصل کی دوبارہ کاشت کرنے کے ارادے سے ہمیشہ کے لیے تائب ہونے پر مجبور کردیتی ہے۔ ہر سال مون سون میں ہونے والی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اگر حکومتی سطح پر ٹھوس اور موثر اقدامات کیے جائیں تو اس سے ہماری زراعت اور آبادگاروں کو جو فائدہ حاصل ہوگا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ آخر کس کس بات کا رونا رویا جائے اور کس مسئلے اور پریشانی سے اغماض برتاجائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام فرد کی جان عذاب میں ہے اوپر سندھ میں امن وامان کی ہر دور میں ابتر صورت حال کا ذکر کیا گیا ہے۔ آج کل بھی اہل سندھ شدید بدامنی سے دوچار ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جب جی چاہے جس شخص کو بھی لوٹ لیں، اغوا کرلیں یا پھر بے دردی سے قتل، انہیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے، سمجھ میں نہیں آتا محکمہ پولیس اور نفاذ امن کے ذمے دار سیکورٹی ادارے آخر کس مرض کی دوا ہیں، وہ کہاں ہیں اور کدھر ہیں؟ سماجی تنظیم سہائی آرگنائزیشن کی چیئرمین ڈاکٹر عائشہ دھاریجو اور سہیل میمن ایڈووکیٹ نے گزشتہ روز سکھر میں دوران پریس کانفرنس انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں پچھلے چھے ماہ کے دوران صرف کاروکاری کی غیر قانونی رسم کے تحت من گھڑت الزامات عائدکرکے 88 خواتین سمیت 123 قیمتی جانوں کا اتلاف کیا جاچکا ہے، یعنی انہیں ناحق قتل کردیا گیا ہے۔ خصوصاً خواتین کو تو بھیڑ بکریوںکی مانند نشانہ ٔ ستم بنایا جارہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں قبائلی جھگڑوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ خصوصاً کشمور، گھوٹکی اور شکارپور کے کچے کے علاقے میں گزشتہ کچھ عرصے میں سکھر بیراج سے 32 انسانوں کی لاشیں تیرتی ہوئی مل چکی ہیں لیکن حکومت سندھ اور سکھر کی انتظامیہ کے کانوں پر باوجود سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر شدید واویلا کے جوں تک نہیں رینگی ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی تحقیقات کرسکیں کہ آخر یہ نعش کس کی ہیں اور کہاں سے آئی ہیں؟ بس حکومت سندھ اور سکھر کی ضلعی انتظامیہ ان ملنے والی نعشوں کو لاوارث قرار دے کر ان کی تدفین کرادیتی ہے جو ظلم اور نااہلی اور بے حسی کی انتہا ہے۔
ذکر جب سندھ کے کچے کے علاقے کا ہوا ہے تو باخبر ذرائع کے مطابق سندھ کے کچے کے علاقوں گھوٹکی، کندھ کوٹ اور کشمور میں 50 سے زائد مغوی ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں، جہاں ڈاکو انہیں غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنارہے ہیں تا کہ مغویوںکے اہل خانہ اور ورثا سے تاوان کی بھاری رقم وصول کی جاسکے۔ ڈاکوئوں کی جانب سے اپنی ضد میں موجود مغویوں سے جو غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ، غیر اخلاقی تشدد اور گھنائونے انداز کی جو بدسلوکی روا رکھی جارہی ہے اس کی ویڈیو بنا کر خود ڈاکوئوں نے وائرل کی ہیں جنہیں دیکھ کر کلیجہ کانپتا ہے، ہول اُٹھتا ہے اور گھٹیا فطرت پست ذہنیت کے ڈاکوئوں نے مغویوں کو عریاں کرکے ان سے جس انداز میں حد درجہ غیر اخلاقی بدسلوکی روا رکھی ہے اس کو دیکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے اور انسان یہ سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ آخر ہم کہاں اور کس ملک میں رہ رہے ہیں؟ آخر نفاذ امن کے ذمے دار ادارے کہاں ہیں؟ حکومت سندھ اور وفاقی حکومت اس انتہائی سنگین صورت حال کا نوٹس کیوں نہیں لیتیں؟ کیا سب سرکاری متعلقہ ذمے دار ادارے بے حمتی، بے حسی اور ڈھٹائی کی ردا اوڑھ کر دائمی طور پر خواب مرگ میں چلے گئے ہیں۔ ان تک مظلوم مغویوں کی آہ و بکا کیوں نہیں پہنچ رہی ہے؟ آخر مغویوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والے انسانی روپ میں جانور ڈاکوئوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں کون سا امر مانع ہے؟
اسلامی مملکت پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے میں ڈاکو مغویوں کو یکسر عریاں کرکے ان سے ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ویڈیوز میں دکھائے گئے ہیں اور مغوی اس ظلم پر جو آہ و فغاں کررہے ہیں وہ تمام نفاذ امن کے ذمے دار اداروں کے لیے ایک تازیانہ کا باعث ہونا چاہیے۔ کیا کسی اور ملک میں ایسی بھیانک اور گھنائونی صورت حال کا تصور کرنا بھی ممکن ہے؟ ضلع گھوٹکی کے نااہل ایس ایس پی تنویر تنیو، آئی جی سندھ غلام نبی میمن، ڈی آئی جی سکھر جاوید سونہارو کو اس سنگین صورت حال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مغویوں کی بازیابی کے لیے ڈاکوئوں کے خلاف فی الفور ایک بے رحمانہ آپریشن شروع کرنا چاہیے اور اگر پولیس میں یہ سکت نہیں ہے تو رینجرز سے مدد لی جائے اور پست فطرت ڈاکوئوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔