امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے 12 اگست سے احتجاج کا اعلان کیا ہے جو بروقت ہے، ان کی یہ کوشش ملک سے مہنگائی کے طوفان کو روکنے اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ہے جو قابل تحسین ہے کیونکہ تمام بڑی حکمران پارٹیاں خود اس معاشی نظام کی بربادی کا حصہ رہی ہے یا دور حاضر میں ہیں ان سے بہتری کو کوئی امید نظر نہیں آتی، ان تمام بڑی جماعتوں جن میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔
وطن عزیز دیوالیہ ہونے کے قریب ہے حکمرانوں نے ملک کو معاشی ترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے اقدامات کے بجائے سارا بوجھ عوام کو منتقل کر دیا جس سے مہنگائی پچھلے 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور ہماری برآمدات میں اضافے کے بجائے کمی آئی۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے معیشت میں مختلف مسائل سنگین صورت اختیار کرگئے ہیں جو پہلے سے موجود تھے جن میں دو کا خصوصاً تذکرہ کرنا ضروری سمجھوں گا، پہلا برآمدات میں کمی اور دوسرا مہنگائی میں اضافہ ہے، دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی اس کی بڑی وجہ برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، برآمدات میں اضافہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنے ملک کی اشیاء سستی قیمت پر بناتے ہیں جو آسانی سے بیچی جاتی ہے دنیا کے مختلف ممالک میں۔ سستی اشیاء پیداوار کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا سستا ہونا ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عوام اور کاروباری طبقہ کے اندر شدید بے چینی پائی جا رہی ہے جب سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے ملک کے مختلف علاقوں کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ جبکہ کراچی کے صارفین کے لیے 11 روپے 37 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے کی منظوری دے دی۔ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک کے مختلف علاقوں کے صارفین کے لیے جون کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی ہے۔ نیپرا میں سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جون کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 9 روپے 90 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں ملک کے مختلف علاقوں کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی گئی۔ قیمتوں کی اضافی وصولی جولائی اور اگست کے بلوں میں کی جائے گی جس سے صارفین پر 133 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، اس فیصلے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ دوران سماعت چیئرمین نیپرا نے پوچھا کہ اگر بجلی کی پیداوار کے لیے ایل این جی نہ خریدی گئی تو کیا ملک میں لوڈشیڈنگ ہوگی اور حکومت کیا حکمت عملی اپنائے گی، جس پر سی پی پی اے حکام نے بتایا کہ بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کی فراہمی میں بہتری آئی ہے جبکہ گرڈ کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ نیپرا حکام نے کہا کہ سی پی پی اے نے 10 ارب روپے سے زائد کی سابقہ ایڈجسٹمنٹ مانگی ہیں جبکہ جون میں میرٹ آرڈر کی خلاف ورزی سے 88 کروڑ 81 لاکھ روپے اور ایل این جی کی قلت سے 37 کروڑ 69 لاکھ روپے کا بوجھ پڑا۔ ان کے مطابق جون میں بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے پاور پلانٹس چلائے گئے، نیپرا حکام نے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی کارکردگی پر اظہار برہمی کیا۔ چیئرمین نیپرا نے کہا کہ سسٹم کی مشکلات کے باعث نیپرا اربوں روپے کی کٹوتیاں کرچکا ہے، اگر یہ کوئی نجی ادارہ ہوتا تو کیا وہ اتنے پیسے کاٹنے دیتا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے نیپرا کے رکن نے کہا ڈسکوز کے مقابلے میں این ٹی ڈی سی کی کارکردگی بدترین ہے، اتنی بری حالت کس کمپنی کی ہے جہاں لوگوں کے مرنے کا خدشہ ہو، وہ لوگوں کی شکایات سن سن کر تھک گئے ہیں کیونکہ این ٹی ڈی سی ایک مکمل تباہ حال ہے، ملک جتنا تباہ ہوا ہے اس میں این ٹی ڈی سی کا بہت بڑا کردار ہوگا۔
کراچی کے صارفین کے لیے بجلی 11 روپے 37 پیسے فی یونٹ مہنگی جہاں ملک کے دیگر حصوں کے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے وہاں کراچی والوں کے لیے بھی نیپرا نے جون کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت میں 11 روپے 37 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا۔ نیپرا کے مطابق جون میں میرٹ آرڈر کی خلاف ورزی سے 66 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بوجھ پڑا ہے۔خیال رہے کہ 22 جولائی کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے نیشنل الیکٹریکل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے بجلی کے بنیادی ٹیرف کی قیمت میں فی یونٹ 7 روپے 91 پیسے کا اضافہ کرنے کی حکومتی درخواست منظور کی تھی۔ ماہانہ بلوں میں شامل ہونے والے بجلی کے چارجز میں 46.77 فی صد کے حیران کن اضافے کے حوالے سے تمام شعبوں کے ماہرین، ماہرین اقتصادیات، ماہرین سماجیات اور سیاست دانوں کا اتفاق ہے کہ اس کا پاکستانیوں کی بڑی اکثریت پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پہلے ہی موجودہ 16.91 روپے سے 24.82 روپے فی یونٹ کی بنیادی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے اور حکومت نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ اس کے اطلاق کا نوٹی فکیشن جاری کرنے والی ہے۔ ماہانہ بلوں میں شامل ہونے والے بجلی کے چارجز میں 46.77 فی صد کے حیران کن اضافے کے حوالے سے تمام شعبوں کے ماہرین اقتصادیات، ماہرین سماجیات اور سیاست دانوں کا اتفاق ہے کہ اس کا پاکستانیوں کی بڑی اکثریت پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ بجلی کے بلوں پر عام ٹیکس کی شرح تقریباً 22 فی صد ہے جس سے فی یونٹ لاگت میں مزید 5.46 روپے کا اضافہ ہو جائے گا، اس کے نتیجے میں گھریلو صارفین کے لیے یہ شرح 30.28 روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔ سماجی اور اقتصادی تباہی ہونے جارہی ہے، چند لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیے جائیں گے، متوسط طبقے میں کمی اور نچلے متوسط میں اضافہ ہوگا، جرائم کی شرح بڑھے گی اور سماجی انتشار مزید گہرا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو بھی کوئی فائدہ نہ ہو کیونکہ بجلی کی چوری میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا جو کہ مطلوبہ اثرات کو بے اثر کردے گا، چوری کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔ اس قسم کے بوجھ جلد ہی بقا کے لیے چیلنج بن جائیں گے جس کا اکثریت مقابلہ نہیں کر سکتی، تیل اور گیس کی قیمتوں کے بھی اسی طرح کے دباؤ شامل ہوں گے اور سماجی افراتفری کا خدشہ ایک المناک صورت اختیار کرے گا۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے کثیرالجہت اثرات ہوں گے اور اس کا پے در پے دبائو ہوگا، دکاندار زیادہ بل ادا کریں گے اور زیادہ نرخ مانگیں گے، ہوٹل مالکان اب اضافی بل ادا کریں گے اور انہیں کسٹمر چارجز میں شامل کریں گے۔ لوگ دبائو کا سامنا کریں گے اور ان کے مسائل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر خبروں کی زینت بنیں گے۔ ملک جس طرز حکمرانی کا سامنا کر رہا ہے اس کے پیش نظر کوئی بھی نہیں جان سکے گا کہ اس اضافے کا اصل اثر کیا ہے اضافہ صارفین پر کس حد تک منتقل کیا جارہا ہے۔ اس اضافے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سے بچنا ممکن تھا، اگر یکے بعد دیگرے حکومتیں گزشتہ چند برسوں میں اپنے بل کی وصولی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتیں تو وہ نقصانات کو کم کر سکتی تھیں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے قرض دہندگان کے دباؤ سے بچ سکتی تھیں۔ وصولیاں بل میں طے کی گئی رقم کے 90 فی صد پر پھنسی ہوئی ہیں اور وصول نہ کی جاسکنے والی ادائیگیاں 10 فی صد یعنی 150 ارب روپے سالانہ پر ہیں، اس میں مزید 300 ارب روپے کی چوری شمار کریں تو یہ شعبہ تجارتی حیثیت کھو دیتا ہے۔ یہ المیہ سامنے آرہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم جائزہ نہیں لے سکے، کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے ہم نے ہمیشہ ٹیرف میں اضافے پر انحصار کیا جو کہ تیزی سے اپنی افادیت کھو دیتا ہے کیونکہ ریکوری میں کمی اور چوری بڑھ جاتی ہے جس سے شعبہ واپس اسی مقام پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اس اضافے سے اس شعبے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے لوگوں کو اتنا نقصان پہنچے گا جتنا کہ عام طور پر خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے سابق سربراہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا کے پاس بجلی کے نرخوں کو ایڈجسٹ کرنے کا تین جہتی طریقہ کار ہے جس میں ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ قیمت کا فیصلہ کرتے وقت نیپرا کئی تغیرات پر غور کرتا ہے جن میں ایندھن کی قیمت، ڈالر کی برابری، آپریشن اور مینٹی نینس چارجز شامل ہیں۔ اگر ڈالر کی قیمت میں ابھی اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کا بعد میں ہونے والی ایڈجسٹمنٹ پر صفر سے کم اثر پڑے گا، تیل کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے، اگر موجودہ تعین میں بنیادی حوالہ قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو مستقبل میں فیول لاگت کی ایڈجسٹمنٹ اسی طرح کم ہو جائے گی۔ بنیادی طور پر ان تمام ایڈجسٹمنٹ کو آئندہ مالی سال میں دوبارہ ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ اس قسم کا غیر معمولی اور تیز اضافہ نیپرا کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، یہ عوامی مفادات کے محافظ کے طور پر اس کے کردار پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
نیپرا نے حال ہی میں جو ٹیرف ہائیڈل کے لیے PEDO کے پروجیکٹس کو دیے ہیں وہ صرف 9/kWh روپے ہے چیئرمین نیپرا کے مطابق سولر کے لیے اس سے بھی کم تھا۔ اگر بجلی اتنی سستی خریدی گئی تو عوام اور انڈسٹریل یونٹس کو 2 سو فی صد مہنگی کیوں دی جارہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے حل کیا ہے مہنگائی سے غربت میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہمیں دیوالیہ ہونے کے قریب کر رہی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ ہائیڈل پروجیکٹس فوری مکمل کیے جائیں، تاکہ تھرمل سے مہنگے داموں بجلی نہ خریدی جاسکے، انڈسٹریل یونٹس کو صرف انرجی کی پیداواری قیمت پر فراہمی کی جائے، این ٹی ڈی سی اور سی پی پی اے (جی) سے کرپشن کو ختم کرتے ہوئے کارکردگی کو بہتر کیا جائے، بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کی سست رفتار کو تیز کیا جائے، تاکہ بجلی کی قلت کے ساتھ نرخوں میں کمی لائی جائے۔ این ٹی ڈی سی کا کردار اہم ہے پاور ایویکوایشن کے لیے ٹرانسمیشن لائنز کو جلد مکمل کیا جائے۔ ڈسکوز کو ختم کرکے واپڈا کو مکمل اختیار دیے جائیں جس سے واپڈا کا ادارہ خسارے سے نکل جائے گا، واپڈا کے سربراہ کو انجینئرنگ کور سے ہونا چاہیے نہ کہ آرمڈ کور سے جو ان مسائل سے تدراک کر سکے۔