سچ کہا ہے کسی نے کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یوں تو آزادی حاصل کرنا ایک جاں گسل جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہے مگر آزادی کو برقرار رکھنا بھی ایک جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلمانان بر صغیر کے اقتدار کا خاتمہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا شدید دھچکا تھا جس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا اس صدمے کے نتیجے میں پست ہمت ہو جاتے ان کی دینی، اخلا قی حمیت پارہ پارہ ہو جاتی اور دوبارہ عظمت رفتہ کو حاصل کرنا ممکن نہ رہتا اور آزادی حاصل کرنے کی تمنّا دل میں رہت۔ اس کارواں میں تعداد کی قلّت اور کثرت واقع ہوتی رہی مگر کارواں اپنی منزل آزادی کی جانب بڑھتا رہا کبھی اس کی قیادت سید احمد شہید نے کی، کبھی بنگال سے نواب وقار الملک نے مسلم لیگ قائم کی اور کاروانِ آزادی کو آگے بڑھا یا، کبھی مولانا الطاف حسین حالی، اکبر الٰہ آبادی اور علامہ اقبال نے کارواں کے دل میں آزادی کی روح کو بیدار کیا پھر قائد اعظم کی قیادت میں آزادی کا خواب پورا ہوا یہ دو صدیوں میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
مگر تکمیل ابھی باقی ہے اٹھو چلو وطن سنبھالو
جس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے اتنی قربانیاں دیں، ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں بہت مضبوط ہوتیں لیکن بد قسمتی سے ہم نے ایسے حکمرانوں کو خود پر مسلّط کیا جنہوں نے اس مملکت خداداد کے مقاصد کو فراموش کر دیا اور لوگوں کو علاقائی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر آپس میں لڑوانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو کر رہ گیا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا، لوگوں کے ذہنوں میں حسد کی آگ سلگا کر ان کو اپنے اسلامی ثقافت و اقدار سے دور کر دیا گیا اور یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ جڑ پکڑتی چلی گئی کیونکہ جب تک ملک کا زمام کار ان فاسق اور فاجر کرپٹ انگریز کے غلاموں کے ہاتھوں میں رہے گی یہ ممکن نہیں کہ ہمارا ملک ترقی کر ے گا اور اس کی آنگن میں بہاریں آئیں۔ ایسی صورتحال میں ہم نوجوانوں کا فرض بنتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلامی نظریہ اور قومی اتحاد رکو برقرار رکھنے کی جدوجہد کا آغاز کریں اور اس کو صحیح معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ نظریہ پاکستان کا یہ ایجنڈا پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔
عائشہ نور
wwwayeshanoor45com@gmail.com