خودی کا سرِ نہاں

792

’’خودی‘‘ جسے علامہ اقبال کی شاعری میں ایک کلیدی مقام حاصل ہے یہ دراصل ایک مخصوص کیفیت اور جذبے کا نام ہے۔ جس کی سطح اور معیار ہر انسان میں اس کے مزاج، رہن سہن اور اس کی سماجی حیثیت کے مطابق کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ خودی کا گہرا تعلق انسان کی نفسیات اور اُس کی سماجی حیثیت سے ہوتا ہے۔ جذبہ خودی بعض انسانوں میں شدت سے ظاہر ہوتا ہے اور بعض میں اس کا اظہار حالات و واقعات کے تابع ہوتا ہے۔ غرض کہ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جس کا تعلق انسان کی عزت نفس سے ہوتا ہے۔ سماجی لحاظ سے کوئی کمتر انسان بھی اپنی تذلیل اور توہین عام طور پر برداشت نہیں کرتا اور ایک رد عمل ضرور ظاہر کرتا ہے، چاہے وہ رد عمل کمزور نوعیت کا ہو۔ علامہ اقبال ؒ کے مشہور زمانہ شعر کا مصرعہ اولیٰ خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ کو سمجھنے کی اگر عام ڈگر سے ہٹ کر کوشش کی جائے تو اُس کا ایک منفرد اور اعلیٰ مفہوم ہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ کہ انسان کی خودی اُس کے ذاتی عزت نفس میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا میں مضمر ہے۔ یعنی جہاں اللہ کے احکام اور رسول اللہ کی شریعت کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، شعائر اللہ کا تمسخر اڑیا جا رہا ہو، شریعت اسلامیہ کے منافی اعمال ہو رہے ہوں اور نتیجتاً معاشرے میں اخلاقی و دینی اقدار تباہ و برباد ہو رہی ہوں وہاں اس نظام کے خلاف ڈٹ جانا اُسے رد کرنا اور پوری قوت اور استطاعت کے مطابق اُسے روکنا ہی خودی ہے۔ یہ جذبہ خودی اپنی ذات یا عزت نفس کے لیے نہیں بلکہ خالصتاً اللہ کے احکام اور دین اسلام کے تحفظ اور شریعت محمدیؐ کی بقا کی خاطر کہلا ئے گا۔ اسی جذبہ خودی کی عملی تفسیر رسولؐ عربی کے نواسے حسین ابن علیؓ نے 10محرم الحرام 61ہجری کو کربلا کے تپتے صحرا میں تین دن کی بھوک اور پیاس کی حالت میں اپنی، اپنے اہل بیت اور اصحاب کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بارہ گاہ احدیت میں پیش کر کے کی اور دنیا کے سامنے خودی کے سرِ نہاں کو عیاں کر کے ایک زندہ و تا بندہ مثال ہمیشہ کے لیے قائم کر دی۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس بے مثل و بے نظیر معرکے میں حسینؓ اور اُن کے ہمراہیوں کی ذاتی خودی اور انا کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ حسین نے نا صرف اسلام بلکہ انسانیت کے اعلیٰ اصولوں اور اقدار کی بقا کی خاطر جسے یزید اور اس کی حکومت اپنے پیروں تلے روند رہی تھی اپنی اور اپنے عزیزوں او ر اصحاب کی قیمتی جانیں قربان کیں اور دنیا کے لیے ایک ایسا نمونہ عمل پیش کیا۔ جس نے ہمیشہ کے لیے آشکار کر دیا کہ انسان کی اصل خودی اور سر بلندی وہی ہے جو مرضی الٰہی کے تابع ہو۔ اور اسی فکر کو علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ مصرعے میں پیش کیا ہے۔ انسان کی خودی جب مرضی الٰہی کے تابع ہو جائے تو اس کی ذاتی انا، ذاتی فائدہ و نقصان، ذاتی دشمنی و دوستی حتیٰ کہ اُس کی اور اس کے عزیزوں اور جگر گوشوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کے فطری تقاضوں کی پاسداری ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس مقام پر انسان کی خودی اللہ رب العزت کی منشاء و مرضی کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور اُس کا ہر فعل ہر عمل اپنے رب کی رضا کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اللہ کے جلیل القدر نبی سیدنا ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ اللہ انہیں حکم دے رہا ہے کہ اپنے بیٹے اسماعیل کی قربانی دو۔ نبی کا خواب درجہ و حی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا سیدنا ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے سے خواب کا ذکر کیا۔
سیدنا اسماعیل نے فرمایا کہ میں اللہ کی رضا پر راضی ہوں، آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ لہٰذا آپ اللہ کے حکم پر عمل کریں۔ سیدنا ابراہیم ؑ کے لیے بیٹے کو قربان کرنا قدرت کی طرف سے ایک کڑا امتحان تھا، ایک باپ ہونے کے ناتے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا، اُسے تڑپتے دیکھنا گوارہ نا ہوا۔ لہٰذا آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیٹے کی گردن پر چھری چلائی۔ اس مقام پر آپ ؑ کا امتحان تمام ہوا اور اللہ نے اسماعیل کی جگہ دنبہ بھیج دیا۔ اور قدرت کی ندا آئی کہ ابراہیم ؑ ہم نے اس قربانی کو ذبح عظیم میں بدل دیا ہے اور تم اپنے امتحان میں پورے اُترے ہو۔ یہ ذبح عظیم حسین اور اُن کے پیاروں کی قربانیوں پر 61ہجری میں منتج ہوا اور اسی ذبح عظیم کو علامہ اقبال نے خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ قرار دیا ہے۔ حسین کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ یزید کی بیعت کر کے اپنی اور اپنے تمام اعزاء و اقرباء اور اصحاب کی زندگیاں محفوظ کر لیتے۔ حسین اگر بیعت کر لیتے تو وہ رسول ؐ کی طرف سے بیعت سمجھی جاتی اور اُس صورت میں شریعت محمدی ؐ اور دین اسلام کا شاید نام تو باقی رہتا لیکن اُس کی ہیت کلی طور پر تبدیل ہو جاتی اور اسلام کے نام پر ملوکیت اور فسطائیت کا نظام قائم ہو جاتا۔
آج جو اسلام زندہ ہے شریعت محفوظ ہے، حق اور باطل میں فرق با آسانی کیا جا سکتا ہے، علم اور جہل کے راستے جدا ہیں۔ حق و صداقت کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ظلم کو للکارنے کا چلن آج بھی زندہ ہے، جذبہ جہاد آج بھی بیدار ہے یہ سب حسین اور دیگر شہدائے کربلا کی عظیم الشان اور بے مثل و بے نظیر قربانیوں کا صدقہ ہے اور یہ خودی کا وہی جذبہ ایمانی ہے جو اپنی انا، عزت نفس اور آرام و سکون کو تج کر کے خدائے وحدہ لا شریک کی رضا اور خوشنودی میں خود کو غرق کر کے ہی حاصل ہو تا ہے۔ اللہ رب العزت تمام انسانوں کو جذبہ خودی کو سمجھنے اور اُس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔