بھارت میں ہندو قوم پرستوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،مسلم یونیورسٹی،ہمدرد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ میں بر صغیر کے معروف عالم دین مولانا مودودی اور مصری اسلامی اسکالر سید قطب کی کتابوں کو نصاب سے خارج کرنے کا مطالبہ کردیاہے ۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کے بعض ہندو قوم پرستوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں حکومت کو متوجہ کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی یورسٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد یونیورسٹی جو حکومت کے خرچ سے چلتی ہیں ، ان کے نصاب سے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی کتابیں نکال دی جائیں، خط میں ان یونی ورسٹیوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
خط میں مذکورہ یونی ورسٹیوں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ان کے شعبۂ اسلامیات کے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کے نصاب میں جہادی اور ملک مخالف مواد کو شامل کیا گیا ہے ۔ یہ تینوں ادارے پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے لیے ٹریل بلیزر اور رول ماڈل ہیں ، لہٰذا وہ جو رخ اختیار کرتے ہیں وہ پورے ہندوستان کے اسلامی تعلیمی اداروں کے ساتھ ملک میں مسلم سیاست کے بنیادی اصول وضع کرتا ہے ۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ مولانا مودودی کی کتابیں ، جن میں مبینہ طور پر نفرت انگیز مواد پایا جاتا ہے ، ان یونی ورسٹیوں کے نصاب کا حصہ ہیں ۔مولانا مودودی کی فکر کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے ، مثلاً یہ کہ انھوں نے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت ہندوستان کی محبت میں نہیں کی تھی ، بلکہ وہ ‘مشن غزوۂ ہند’ کے لیے پرعزم تھے۔پورے برصغیر میں غیر مسلموں اور ان کی ثقافت کا مکمل صفایا کر کے عالمی اسلامی امت بنانا ان کا ہدف تھا ۔
ہندو قوم پرستوں نے خط میں لکھا ہے کہ مولانا کی تحریریں مبینہ طور پر غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا مطالبہ کرتی ہیں اور اجتماعی قتل یا زبردستی اسلام قبول کرنے پر اُکساتی ہیں ۔ مودودی جماعت اسلامی ہند (JIH) کے بانی تھے ، جو ہندوستان کے مکمل اسلامائزیشن کے لیے پرعزم تنظیم تھی ۔اس کا صدر دفتر دہلی میں ہے اور یہ وزارتِ داخلہ کی ناک کے نیچے پھل پھول رہی ہے ۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ مودودی کے ہائیڈرا ہیڈ آئیڈیالوجی نے انڈین مجاہدین ، ہند کی ولایت (اسلامک اسٹیٹ کا ہندوستانی صوبہ) جے کے ایل ایف ، حریت ، رضا اکیڈمی ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا وغیرہ جیسی کئی شاخیں تخلیق کیں ۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ہند نے سیمی (SIMI) کی بنیاد رکھی ۔ ان سب پر یا تو مختلف اوقات میں پابندی لگا دی گئی ہے ، یا فی الحال انتہائی سنگین الزامات کے تحت این آئی اے کی جانچ پڑتال کے تحت ہیں ،بین الاقوامی سطح پر نام زد دہشت گرد تنظیمیں ، جیسے القاعدہ ، داعش ، حماس ، حزب اللہ ، اخوان المسلمون ، طالبان وغیرہ مودودی کے بنیادی نظریے اور سیاسی اسلام کے فریم ورک سے متاثر ہوکر اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
ہندو قوم پرستوں نے بھارتی یونیورسٹیوں میں ان مسلم اسکالر کی کتابیں پڑھانے پر اعتراض کرتے ہوئے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا اور اس کے لیے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا۔ ابھی تک صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محکمہ رابطہ عامہ سے وابستہ ایک اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بہت سے پروفیسر اس کے مخالف تھے، تاہم وائس چانسلر کے احکامات کے بعد ایسا کرنا پڑا اور دونوں اسلامی مفکرین کی کتابوں کو نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کچھ روز قبل خبر آئی تھی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سرکاری سالانہ بجٹ میں خاصی کٹوتی کردی گئی ہے جب کہ بنارس ہندو یونی ورسٹی کا بجٹ دوگنا کردیا گیا ہے، اس زیادتی اور ناانصافی کے خلاف آواز نہ اٹھے ، اس کے لیے اس سے اچھی ترکیب اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان یونی ورسٹیوں ہی کو مجرم بنادیا جائے؟