چین… امریکا کشیدگی

736

روس کے بعد امریکانے چین کو بھی مشتعل کرنا شروع کردیا ہے۔ واضح الفاظ میں خبردار کرنے کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر اور جوبائیڈن کے بعد دوسری اہم ترین سیاسی شخصیت نینسی پلوسی تائیوان کے دارالحکومت تائی پے پہنچ گئی ہیں۔ نینسی پلوسی ایشیائی ممالک کے دورے کے لیے اپنے ملک سے نکلی ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کے دفتر سے جاری کردہ دورئہ ایشیا سے متعلق اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ وہ اس دوران سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان جائیں گی۔ اس بیان میں تائیوان کا ذکر نہیں تھا لیکن عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بات نشر اور شائع ہوچکی تھی کہ وہ تائیوان بھی جائیں گی۔ تائیوان کے معاملے پر چین بہت حساس ہے، تائیوان کے حوالے سے امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ روس کی طرح چین بھی تائیوان پر فوجی قبضہ کرسکتا ہے، جس طرح روس نے یوکرین کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا۔ امریکی اشتعال انگیزی کے ردِعمل میں روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ امریکا اور ناٹو یوکرین کی فوجی اور اقتصادی مدد تو کررہے ہیں لیکن امریکی اور ناٹو فوجوں نے براہِ راست کارروائی کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس کے باوجود چھٹے مہینے میں داخل ہوجانے والی روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ روس یوکرین جنگ کے عالمی جنگ میں بدلے کے خطرات موجود ہیں، ابھی یہ جنگ پھیلی نہیں ہے لیکن اس جنگ نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ امریکا نے روس پر کئی اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں، جس کے جواب میں روس دفاعی، سفارتی، تجارتی دائرے میں مزاحمت کررہا ہے جب کہ یہ واضح ہے کہ عالمی سیاست کا مرکزی موضوع امریکا اور چین کی سرد جنگ ہے، جو عملاً اقتصادی دائرے میں جاری ہے۔ اس جنگ کا مرکزی موضوع عالمی تجارتی شاہراہ بی آر ٹی کا چینی منصوبہ ہے جس کا ایک حصہ سی پیک بھی ہے جو پاکستان کی ساحلی بندرگاہ گوادر سے گلگت بلتستان اور کاشغر کے ذریعے چین تک جاتا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو کی وجہ سے چین نے آبنائے تائیوان میں فوجی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ جوہری طاقت سے لیس امریکی بحری جنگی بیڑہ فلپائن کے پانیوں میں موجود ہے، دو طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی موجودگی اور چین کی دھمکیوں کے باوجود نینسی پلوسی کا دورئہ تائیوان کا مقصد یہی محسوس ہوتا ہے کہ چین کو مشتعل کیا جائے اور ایک نیا محاذ جنگ کھول دیا جائے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اچانک ملائیشیا سے تائی پے پہنچ گئیں۔ چینی حکومت نے نینسی پلوسی کی آمدورفت پر خصوصی نظر رکھی ہوئی تھی، نینسی پلوسی کے تائیوان پہنچنے کے بعد چینی وزارت خارجہ نے سخت زبان میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ یہ دورہ ہماری سلامتی کی سنگین خلاف ورزی ہے، جس کی امریکا کو قیمت چکانی ہوگی۔ چینی وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ اس دورے نے آبنائے تائیوان میں امن و سلامتی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، امریکی سیاست دان آگ سے کھیل رہے ہیں، اس کے امریکا چین تعلقات پر شدید نوعیت کے اثرات ہوں گے۔ چین نے امریکا سے سخت زبان میں احتجاج کرنے کے ساتھ اپنی فوجوں کو چوکنا اور خبردار رہنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ اِدھر روس نے بھی امریکی اسپیکر کے دورئہ تائیوان کی مذمت کردی ہے اور اسے اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ پلوسی کے دورہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تائیوان کو تھپکی دے رہا ہے کہ وہ چین سے علاحدگی اور خودمختاری کے لیے جو اقدامات کرے گا، اس کے لیے اسے امریکی ’’فوجی‘‘ مدد حاصل ہوگی۔ امریکا اس جنگ کو جمہوریت اور آمریت کی جنگ بنارہا ہے۔ ابھی بحر اسود میں امن قائم نہیں ہوا ہے۔ اس جنگ کی وجہ پوری دنیا اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ مہنگائی کے طوفان نے خود امریکا کو متاثر کیا ہے، انڈوپیسفک میں جنگ کے محاذ کو گرم کرنے سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ ابھی امریکا دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے بڑی مشکل سے نکلا ہے۔ ایک معاہدے کے نتیجے میں امریکی فوج نے محفوظ طریقے سے افغانستان سے انخلا کیا ہے۔ لیکن افغانستان کے معاملات کو خراب کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کابل میں ڈرون حملے کی منظوری دی اور اس بات کی تصدیق کی کہ اسامہ بن لادن کے جانشین اور القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو شہید کردیا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان نے اس حملے کو عالمی قوانین اور دوحا معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے ابھی تک سبق نہیں سیکھا ہے۔ اس مرحلے پر جب کہ روس کے بعد امریکا چین کو بھی مشتعل کررہا ہے۔ افغانستان میں ڈرون حملہ مختلف محاذوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کی سازش کے اشارے بھی دے رہا ہے۔ کابل پر امریکی ڈرون حملے سے متعلق اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے کہ یہ حملے کہاں سے کیے گئے ہیں، کیا پاکستان کی فضائی حدود بھی استعمال کی گئی ہیں؟ جب کہ یہ کھلا راز ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکا پاکستان سے سی آئی اے کے لیے فوجی اڈوں کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ کیا قوم سے چھپا کر ایسے معاہدے کرلیے گئے ہیں۔