پاکستان اس وقت جس بحران میں ہے اس کے قصوروار یقینا ۲۲ کروڑ عوام ہی ہیں اگر اس بحران کی ذمے داری سیاست دانوں یا ریاستی اداروں پر ڈالیں تو یقینا زیادتی ہوگی یہ وہ کڑوا جھوٹ ہے جس کو ہمیں پینا ہوگا اگر نظام مضبوط شفاف غیر جانبدار ہو تو ووٹ ایک ایسی طاقت ہے جس سے ہم اپنے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ووٹ کی طاقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ وہ طاقتور اشرافیہ جو دل میں غریب سے نفرت رکھتی ہے جو ۷۴ برس سے اس غریب قوم کے مسائل پر اپنی سیاست چمکاتے آئے ہیں جو غریب کے مسائل پر کبھی سنجیدہ ہی نہیں ہوئے جب جب ان کو اقتدار کی ضرورت ہوئی یہ سیاسی مخلوق غریب کی دہلیز پر اس طرح نظر آئی جیسے برسوں کے مسائل چند گھنٹوں میں حل کرادیے جائیں گے۔ یہ جانتے ہیں کہ ان کا سیاسی مستقبل غریب کی دہلیز سے وابستہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کی زندگیوں میں خوشحالی غریب کے قیمتی ووٹ ہی سے ممکن ہے، اگر غریب کا ووٹ اس کے حق میں نہ ڈلے تو ان کی سیاسی دکانیں کب کی بند ہوجائیں۔
پاکستان کی سیاست اور اقتدار کا سہرا کس کے سر سجایا جائے اس کا فیصلہ پاکستان کے طاقتوار اداروں کے بغیر ممکن نہیں ووٹ جو عوام کا ایک قیمتی سرمایہ ہے وہ اپنی جگہ مگر مداخلت کے الزامات کو رد نہیں کیا جاسکتا، یہ لوگ ہر دور میں ضمیر فروشی کرکے ملک کے مستقبل اور جمہوریت کو نقصان پہنچاتے آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف سمیت یہ تینوں جماعتیں لوٹوں کے بغیر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کی اہلیت نہیں رکھتیں ہر ایک نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے ضمیر فروشوں اور سیاسی مخالفین کو ساتھ ملا کر اقتدار کے مزے لوٹے ہیں جس نے جمہوریت اور اداروں کو مشکوک بنایا ہے۔
ان تمام سیاسی جماعتوں کی عوام اور ان کے مسائل سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس وقت پورا پاکستان طوفانی بارشوں کی لپیٹ میں ہے گائوں دیہات ڈوب گئے ہیں کراچی جیسا شہر چند دنوں کی برسات میں ڈوب گیا سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کر حادثات کی وجہ بنی ہوئی ہیں سیوریج کا نظام برباد ہوگیا ہے کاروباری حضرات کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا ہے، پورے پاکستان کا نظام زندگی مفلوج ہوکر رہے گیا ہے مزدور طبقہ، چھوٹے کاروباری مشکل کی اس گھڑی میں حکومتی امداد کے منتظر ہیں مگر ہر جانب سے اس غریب قوم پر مہنگائی کے بم برسائے جارہے ہیں برسات نے جہاں تمام نظام زندگی مفلوج کر دیا ایسے میں حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں چھے ہزار کا غنڈا ٹیکس لگا کر عوام کی زندگیوں میں ایک اور مصیبت پیدا کر دی جس سے ان نااہل نالائق حکمرانوں کی عوامی مسائل پر سنجیدگی کا انداز لگایا جاسکتا ہے برسات سے نمٹنے کے ناقص انتظامات نے حکمرانوں کی کار کردگی کو ہر صوبے میں بے نقاب کردیا ہے۔ مگر ان تمام مشکل حالات میں اس وقت ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں ملک میں بڑھتے بحران کو نظر انداز کرتی ہوئی اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ ملک کو بچانے کی آڑ میں ہر ایک اپنی سیاست بچا رہا ہے۔ حکمران اتحاد بری طرح ناکام ہوچکا ہے تین ماہ میں ہی عوام ان سے تنگ آگئے ہیں عدم اعتماد کے ذریعے بنے والی یہ حکومت مہنگائی مکائو کا عزم لیے اقتدار پر براجمان ہوئی مگر تین ماہ میں اس حکمران اتحاد نے مہنگائی سے غریب کی چیخوں میں ایسا اضافہ کیا کہ غریب کو خان کی یاد ستانے لگی۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان تمام ملکی و قومی مسائل کا حل عام انتخابات میں دیکھ رہے ہیں اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں خان صاحب بھی عوامی مسائل کو حل کرنے میں مکمل ناکام رہے البتہ خارجی سطح پر خان صاحب نے کچھ ایسے اقدامات اُٹھائے جن سے خان صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہوا مگر ان کو سازش کے ذریعے عدم اعتماد کی صورت میں اقتدار سے ہٹا کر سزا بھی دی گئی بد قسمتی سے مجھے کیوں نکالا کی صدا ہم 2018 سے اب تک سن رہے ہیں خان صاحب اور میاں صاحب دونوں ہی پوچھتے رہے کہ ہمیں کیوں نکالا؟ یقینا اس کا جواب ان دونوں کو نہیں ملے گا کیوں جہاں ملک کے منافع بخش ادراوں کو سیاستدانوں کی نالائقی ذاتی مفاد کی سیاست نے بانجھ بنا دیا وہاں آج بد قسمتی سے تمام سیاسی جماعتوں کی ناکارہ سیاست نے جمہوریت کو بانجھ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ساتھ ہی ملک کے دو معزز ادارے بھی متنازع بنتے رہے۔
آج ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے اگر اس ملک کی سمت کو درست جانب گامزن نہیں کیا گیا تو شاید وطن عزیز کو ایک بڑے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے اگر ملک کے دو بڑے معزز اداروں نے نظام کو محفوظ بنانے میں اس کو مضبوط مستحکم بنانے میں اپنا غیر جانبدار کردار ادا نہ کیا تو شاید ہم اس غلطی کا ازالہ کبھی نہیں کر سکیں گے اس وقت جمہوریت ملک کے قومی ادارے ملک کا نظام بانجھ ہوچکا ہے اس کو بہتر موثر مضبوط شفاء بخش علاج کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ہر ایک کو اپنا غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔