ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ایک بچی کی تصویر نے سب کو غمزدہ کردیا ہے جو سیلاب کے پانی میں بہتی ہوئی جاں بحق ہوئی۔ وہ دل خراش مناظر یاد آئے جب ایک شامی بچے کی ساحلِ سمندر پر پڑی لاش نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ اس تصویر کے بعد یورپی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے بارڈر کھول دیے تھے۔ ایک بچے کی قربانی لاکھوں لوگوں کو نیا مستقبل دینے میں کامیاب ہو گئی۔ آج شاید وہ پناہ گزین یورپی ملکوں میں اپنے بچوں کے ساتھ خوبصورت زندگی گزار رہے ہوں گے اور انہیں اس بچے یا اس کے خاندان کی دی گئی وہ قیمت یاد بھی نہ ہوگی۔ دکھوں کو کوئی کتنی دیر تک یاد رکھ سکتا ہے‘ اور اگر دکھ بھی پرائے ہوں؟ ہمارے ہاں اس بچی کی لاش پر کہیں سے شور شرابا یا حکمرانوں کا ری ایکشن دیکھا؟ ان حکمرانوں کو پتا ہے کہ اس قوم کی یہی اوقات ہے۔
وزیراعظم عمران خان تھے تو ان کے رشتہ دار شمالی علاقوں میں پھنس گئے تو ہیلی کاپٹر سے فوراً ریسکیو کیا گیا۔ شاید اس نوجوان کے ذہن میں یہی خبر ہوگی جس نے ویڈیو پیغام میں تقریباً روتے ہوئے کہا کہ تین دن سے بچے درختوں سے لپٹے ہوئے ہیں‘ نیچے ہر طرف پانی ہے‘ وہ درختوں پر ہی سو‘ جاگ رہے ہیں‘ خوراک بھی نہیں ہے۔ وہ اپیل کررہا تھا کہ ان کے بچوں کو بچایا جائے‘ اس کا مطالبہ تھا کہ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے تین دن سے ان درختوں سے لٹکے بچوں کو نکالا جائے۔ ایک بچہ پہلے ہی فوت ہوچکا تھا‘ باقی خطرے میں تھے۔ اس کی آنکھوں میں بے بسی دیکھ کر کسی بھی انسان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ بلوچستان‘ اور پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہاں جب خوفناک سیلاب آیا اور بہت سے بنگالی جاں بحق ہوئے تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کو احساس ہوا کہ مغربی پاکستان نہ ان کا دفاع کرسکتا ہے نہ ہی سیلاب میں ان کی مدد کرسکتا ہے۔ بنگلا دیش بننے میں جہاں دیگر عوامل کا ہاتھ تھا وہیں سیلاب اور 1965ء کی جنگ کو بھی ذمے دار سمجھا جاتا ہے کہ پہلی دفعہ تباہی و بربادی بنگالیوں نے اکیلے بھگتی۔
اب وہی مناظر ہمیں بلوچستان میں نظر آرہے ہیں جہاں بچے درختوں سے لٹکے ہوئے ہیں اور انہیں کہیں سے کوئی امداد نہیں مل رہی۔ سرائیکی علاقوں میں بھی تباہی مچی ہے۔ کئی ماہ سے پیش گوئی کی جارہی تھی کہ اس سال زیادہ بارشوں اور سیلاب کا خدشہ ہے لیکن حکمران اشرافیہ اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہی تھی‘ اسے لوگوں کے دکھوں کی کیا پروا نہیں؟ ویسے یہ حکمران اشرافیہ کیوں ان عام لوگوں کے دکھوں کا مدوا کرے جب اسے پتا ہے کہ لوگ ہر قسم کے دکھ سہتے ہیں اور پھر بھی اسے ووٹ ڈالتے ہیں؟ وہ کیوں انہیں اپنے ہیلی کاپٹر دے جو وہ انہی عوام کے پیسوں سے خریدتی ہے جن کے اپنے بچے تین دنوں سے درختوں سے لٹکے ہوئے ہیں؟
تین سال تک عمران خان ہیلی کاپٹر سے نہیں اترے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں اْس وقت کے وزیرداخلہ کراچی سے بریانی اور نہاری وزارت کے ہیلی کاپٹر پر منگواتے تھے۔ شریف بھائیوں کے لیے پنڈی‘ اسلام آباد سے پکوان ہیلی کاپٹر پر مری پہنچائے جاتے تھے۔ یہی علیم خان عمران خان کو 2018ء کے الیکشن کے بعد اپنے جہاز میں عمرہ کرانے لے گئے۔ آج وہی علیم خان اپنا جہاز ان روتے بلکتے بچوں کے لیے نہیں بھیجیں گے کہ انہیں ریسکیو کیا جائے۔ جہانگیر ترین کا جہاز عمران خان نے برسوں مفت استعمال کیا‘ وہ بھی آج خاموش ہیں۔ اس وقت وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ سمیت کئی بڑوں کے پاس ہیلی کاپٹرز ہیں لیکن کوئی بھی تیار نہیں لگتا جو اس نوجوان کی بے بسی سے بھری آواز کا جواب دے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا کہ عوام جب مصیبت میں ہیں تو حکمران اور اشرافیہ بالکل لاتعلق ہیں۔ دنیا بھر میں سڑک حادثات کی صورت میں ہیلی کاپٹر سروس عام سی بات ہے لیکن پاکستان میں اتنے طویل سڑکوں کے نیٹ ورک پر آپ کو کہیں ہیلی کاپٹر نہیں ملتا جو بدترین حادثے کی صورت میں فوری طور پر زخمیوں کو بڑے شہر میں پہنچا کر جان بچانے میں مدد دے۔ ہیلی کاپٹرز چھوڑیں آپ کو کسی بڑی سڑک پر کوئی ٹراما سینٹر تک نہیں ملتا۔ ایم ایم روڈ پانچ سو کلو میٹر طویل ہے اس پر آپ کو ایک پٹرولنگ گاڑی تک نہیں ملتی۔
ایم ایم روڈ سے یاد آیا کہ میرے چند اینکر دوست ٹی وی پر میرے اس سڑک پر لکھے کالموں کا مذاق اڑا رہے تھے کہ دیکھیں اس نے چار سال تک دھول اڑائے رکھی کہ ایم ایم روڈ پر لوگ مررہے ہیں‘ خاندان اجڑ رہے ہیں لیکن عمران خان نے میانوالی سے منتخب ہونے کے باوجود اس سڑک کی طرف توجہ نہ دی۔ ان دوستوں کا کہنا تھا کہ میانوالی سے لیہ اور بھکر تک پسماندگی ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے۔ ان چار برسوں میں پی ٹی آئی حکومت نے ان اضلاع کے لیے کچھ نہ کیا جہاں سے جیتی تھی۔ لوگ اسی ایم ایم روڈ پر ذلیل ہوتے رہے‘ خاندان اجڑتے رہے‘ لوگ مرتے رہے لیکن پھر بھی تازہ الیکشن میں بھکر‘ لیہ اور مظفرگڑھ میں‘ جو ایم ایم روڈ کے کنارے پر واقع ہیں‘پی ٹی آئی سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی ہے بلکہ ڈیرہ غازی خان سے بھی پی ٹی آئی کا امیدوار جیت گیا۔ ان دوستوں کا مذاق اڑانا بنتا ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ تنگ ہوتے اور خاندان اجڑ رہے ہوتے تو بھلا پی ٹی آئی کے امیدوار ان علاقوں کی چاروں سیٹوں سے کیسے جیت جاتے؟ چار سال پنجاب اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومتیں رہیں لیکن ان علاقوں میں سڑک چھوڑیں کوئی بھی بڑا پروجیکٹ شروع نہ ہوا جس سے علاقہ ترقی کرتا‘ لوگوں کو مزدوری ملتی اور خوشحالی ان علاقوں کا منہ دیکھتی۔ پانچ سو کلومیٹر طویل ایم ایم روڈ کے لیے بہت شور مچانے پر صرف اٹھارہ ارب ٹوکن کے طور پر رکھے گئے جس سے صرف اس سڑک پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے وہ بھی اس رقم سے جو سرکاری افسران اور ٹھیکیداروں سے بچ جائے گی۔
یہی ایم ایم روڈ کے رہائشی برسوں تک روتے پیٹتے رہے کہ سڑک بنوا دیں۔ اب میرے دوست ہی ٹی وی پر میرا مذاق اڑاتے ہیں کہ آپ غلط کہتے ہیں‘ آپ کے سرائیکی علاقوں کے لوگوں کو سڑک نہیں چاہیے۔ اگر چاہیے ہوتی تو وہ اس ضمنی الیکشن کے موقع کو استعمال کرتے اور بڑا سخت پیغام بھیجتے‘ لیکن سب کچھ اس کے الٹ ہوا ہے‘ لہٰذا یہ بات سچی نکلی ہے کہ لوگوں کو اپنے مشترکہ مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں‘ ان کے لیے ذاتی‘ ملکی اور عالمی ایشوز زیادہ اہم ہیں۔ اگر اہم ہوتے تو وہ بھی اپنے ایشوز حل کرانے کے لیے باہر نکلتے‘ جلسے جلوس کرتے‘ احتجاج کرتے جیسے وہ عمران خان اور مریم نواز کے جلسوں میں شریک ہو کر کرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے جہاں حال ہی میں عمران خان نے بہت بڑا جلسہ کیا تھا۔ مریم نواز بھی ہر جگہ گئی تھیں۔ آپ کو کسی جلسے میں لگ اپنے مسائل کے لیے اتحاد کر کے اس ایلیٹ کے خلاف احتجاج کرتے نظر آئے؟ الٹا آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہی سب عمران خان اور مریم نواز کے نعرے ماررہے تھے۔ بلوچستان‘ ڈیرہ غازی خان‘ لیہ‘ بھکر‘ ملتان یا میانوالی میں کوئی عوامی جلوس نکلا ہے کہ سیلاب نے تباہی مچا دی ہے اور ان کے بچے درختوں سے لٹکے ہوئے ہیں؟ کوئی نہیں نکلا‘ نہ نکلے گا۔ پھر آپ کو یہ سیاسی اشرافیہ اور حکمران کیوں ہیلی کاپٹر بھیجیں؟ کوئی ایک وجہ بتائیں کہ حکمران طبقہ اپنے ہیلی کاپٹر عوام کے بچوں کو ریسکیو کرنے کے لیے بھیجیں اور خود سائیکل پر دفتر جائیں؟ حکمران اشرافیہ کو پتا ہے کہ آپ عوام مریں یا جئیں‘ آپ کو مریم نواز اور عمران خان کے بڑے بڑے جلسوں میں نعرے ہی مارنے ہیں۔