پاکستانی سیاستدانوں کے لیے لمحہ فکر

433

دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پاکستان ساٹھ کے عشرے سے عالمی مالیاتی اداروں سے با قاعدگی سے قرض لیتا رہا ہے اور مع سود واپس کرتا رہا ہے لیکن ہماری معیشت پر اتنا شدید مشکل وقت کبھی نہیں آیا جتنا آج ہے۔ پٹرول مہنگائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ کسی بھی وقت متوقع ہے۔ بجلی کے نرخوں میں بھی گزشتہ ایک سال میں متعدد بار اضافہ ہو چکا ہے، اور اب بھی ہورہا ہے، اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بجلی کی پیداوار ملکی ضروریات کے مقابلے میں کہیں کم ہے جس کی وجہ سے نہ صرف عام کاروبار متاثر ہو رہا ہے بلکہ چھوٹے اور درمیانہ درجے کے صنعتی یونٹس پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے اور اگر یہی صورتحال تا دیر برقرار رہی تو درجنوں صنعتی یونٹس بند ہوسکتے ہیں بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق بند ہونا شروع ہوگئے ہیں یہ صورتحال بیروزگاری میں مزید اضافہ کا سبب بنے گی جس کے نتیجے میں جرائم میں شدت آئے گی اور معاشرہ مزید انتشار، افراتفری اور بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ اس صورتحال کو ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن اپنے مفاد میں استعمال کریں گے جس کی وجہ سے ہمیں ناقابل تلافی نقصانات پہنچنے کا اندیشہ لا حق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے من حیث القوم متعدد شعبوں میں قابل ستائش ترقی اور کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بننے کا درجہ بھی حاصل ہوگیا، لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اپنے بنیادی مسائل آج تک حل نہ کر سکے بلکہ اْن کی شدت میں روز افزوں اضافہ اور ابتری دیکھنے میں آرہی ہے۔
پینے کا جو پانی شہروں اور خصوصاً دیہی علاقوں میں دستیاب ہے وہ بھی آلودگی سے پاک نہیں۔ ناقص اور آلودہ پانی کے مسلسل استعمال سے صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کی ہر چھوٹی بڑی شاہراہ خستہ حالی کا شکار ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی معقول انتظام نہیں ہر شاہراہ پر چنگ چی رکشوں کی بھر مار ہے۔ اْن رکشوں کے ڈرائیوروں کی اکثریت عموماً کم عمر لڑکوں پر مشتمل ہے۔ جن کے پاس نہ لائسنس ہے اور نہ ہی اْنہیں روڈ سنیس ہے اس وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور حادثات کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ یہ تمام مسائل اپنی جگہ لیکن ان تمام مسائل کی جڑ کرپشن ہے جسے بے ایمانی اور بد عنوانی کے نام بھی دیے جاتے ہیں ہمارے ہر شعبہ زندگی پر بری طرح حاوی ہے المیہ یہ ہے کہ ہمارے صاحبان اقتدار اور حزب اختلاف کے رہنمائوں اور طبقہ اشرافیہ نے اس کے سد باب اور اس جڑ کو اکھاڑ پھنکنے کی آج تک کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی اور کرتے بھی کیسے کیونکہ وہ خود سر تاپا کرپشن کی غلاظت میں غرق ہیں اور اسی وجہ سے ایک دوسرے کی کرپشن پر آنکھیں اور کان بھی بند کرتے چلے آرہے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب شہباز شریف عوامی جلسوں میں اْچھل اْچھل کر آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اور لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹ کر اْن سے لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے دعوے کرتے تھے اور آصف زرداری بڑے تکبر سے کہتے تھے کہ وہ مولوی نواز شریف کی گردن سے سریا نکال کر دم لیں گے جبکہ شہباز شریف کو وہ بات کرنے کے لائق بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ اپنے مشترکہ مفادات اور اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر یہ صاحبان ایک دوسرے کے صدقے واری جارہے ہیں اور اتفاق و اتحاد کی باتیں کرتے نہیں تھکتے یعنی مل بانٹ کر کھانا مشترکہ ایجنڈا قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ ہیں ہمارے حکمران اور سیاسی بازی گروں کے اصل چہرے جنہیں عوام کے مسائل اور محرومیوں کی نہیں صرف اور صرف اپنے اقتدار کو بچانے اور اْس سے تمام تر مالی و دیگر فوائد حاصل کرنے اور اْسے زیادہ سے زیادہ طول دینے کی فکر لاحق ہے۔
اقتدار اور حکمرانی کا منصب کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ یہ منصب کڑی ذمے داریوں سے عہدہ برآء ہونے معاشرے میں نظام عدل قائم کرنے مضبوط کردار اور نفس کْشی کا متقاضی ہے جس سے ہمارا سیاستداں طبقہ چاہے وہ اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر کوسوں دور ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانا ہے تو من حیث القوم ہمیں اپنے ان سیاسی بازی گروں کا کڑا احتساب کرنا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کرپٹ فرسودہ اور استیصالی نظام کے خلاف عوام اْٹھ کھڑے ہوں اور اس کے خلاف پوری قوت سے جہاد شرو ع کریں۔
ہمیں اپنے بے حس، نا اہل اور عاقبت نا اندیش حکمرانوں اور صاحبان اختیار کو ہر قیمت پر باورکرانا ہوگا کہ کرپشن کسی بھی سطح پر ہو اْسے ختم کیے بغیر عوام چین سے بیٹھیں گے اور نا ہی اْنہیں بیٹھنے دیں گے۔ پاکستان میں درجنوں سرکاری و نیم سرکاری محکموں میں کھلے بندوں رشوت کا بازار گرم ہے اور مقامی انتظامیہ اور حکمراں طبقہ اس سے بخوبی واقف ہیں لیکن بدعنوان عناصر پر کوئی قد غن نہیں کسی سطح پر کوئی باز پرس نہیں کیونکہ یہ سب کچھ بد قماش حکمرانوں اور بد عنوان اشرافیہ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ ہمیں اس نظام کو یکسر بدلنا ہوگا اور اس سلسلے میں سخت اور بے رحمانہ قوانین بنانا ہوں گے اور بغیر کسی استثنا کے اْن پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ اس سلسلہ میں ہماری اولین ترجیح ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور سول اور ملٹری طبقہ اشرافیہ کی بیرون ملک بینکوں میں موجود اربوں کھربوں ڈالرز کی دولت، اثاثے اور جائداد فروخت کرکے وہ دولت پاکستان لانے اور قومی خزانے میں جمع کرانے کا اہتمام ہونا ازحد ضروری ہے تاکہ بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کی جائے اور عوام کو معاشی اور دیگر بنیادی سہولتیں دی جا سکیں۔ غریب عوام کو کمر توڑ مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل میں دھکیلنے اور دن رات ان کی بد دعائیں لینے سے بہتر ہے کہ سخت انقلابی اقدامات کیے جائیں، حکمران اور سول و ملٹری اشرافیہ خود کو احتساب کے لیے رضا کارانہ طور پر پیش کریں اور اپنے شاہانہ اخراجات ختم کریں۔ وزیر اعظم اپنے کپڑے بیچ کر غریب عوام کو آٹا فراہم کرنے کے بجائے اپنے شاہی اخراجات میں قابل لحاظ حد تک تخفیف کریں اور اپنے کپڑے بیچ کر نہیں اپنے اربوں روپے کے اثاثوں اور جائدادوں کا نصف حصّہ ہی بیچ کر وہ رقم عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کرنے کا اہتمام کردیں تو یہ ان کا قوم پر احسان عظیم ہوگا اور وہ یہ کام کرکے نہ صرف عوامی وزیر اعظم کہلائیں گے، بلکہ عام آدمی کے دل میں ان کی عزت، وقار اور محبت بھی پیدا ہوگی۔ حکمراں اور اس ملک کے ارب پتی سیاستداں عوام کو سادگی کا بھاشن نا دیں بلکہ خود بھی سادی اپنائیں تاکہ عوام کا مجروح اعتماد ان پر بحال ہوسکے۔ اس ملک کا عام آدمی پچھتر سال گزرنے کے باوجود آج تک اپنے بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہو رہا ہے، صحت، روزگار، اور اس کے بچوں کے تعلیمی مسائل دن بہ دن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت ڈلیوری بوائے اور دوسرے چھوٹے موٹے معمولی کام کر کے اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکمرانوں سیاستدانوں اور سول وملٹر ی طبقہ اشرافیہ کی اولادیں یا تو اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز ہیں، یا اندرون اور بیرون ملک بڑے بڑے کاروبار کر رہی ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت اور نفرت انگیز استیصالی نظام اگر تا دیر جاری رہا تو اس کے ہولناک نتائج برآمد ہوں گے۔ لہٰذا حکمراں اور صاحبان اختیار جتنی جلد نوشتہ دیوار پڑھ لیں اْن کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔