عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے بارے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دے کر چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کردیا ہے۔ وزارت علیا پنجاب کے انتخاب کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو ملنے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین کے ووٹ مسترد کردیے تھے۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے گنتی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کا خط پیش کیا تھا جس میں انہوں نے وزارت علیا کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزارت علیا کے پولنگ آفیسر اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے چودھری شجاعت حسین کے خط کی بنیاد پر وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے صاحبزادے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف کو وزیراعلیٰ منتخب قرار دے دیا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وزارت علیا پنجاب کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے یہ سوال تھا کہ وزارت علیاکے لیے پارٹی کی طرف سے ہدایت جاری کرنے کا اختیار پارٹی کے سربراہ کو ہے یا پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو۔ عدالت عظمیٰ نے اس حوالے سے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں، اس لیے کالعدم قرار دی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 22 جولائی ہی سے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قرار دیتے ہوئے گورنر پنجاب کو ہدایت دی کہ رات ساڑھے گیارہ تک وزیراعلیٰ سے حلف لے لیا جائے۔ اگر گورنر تیار نہ ہوں تو صدر پاکستان عارف علوی اور وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔ حمزہ شہباز شریف کی وزارت علیاپنجاب سے معزولی وفاق میں قائم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔ اسی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اتحادیوں کی جانب سے فیصلے کے بعد سخت ردعمل آیا ہے۔ اتحادی حکومت کے وکیلوں نے اس مسئلے پر لارجر بنچ قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے لارجر بنچ کی تشکیل کو چیف جسٹس کا اختیار قرار دیتے ہوئے درخواست مسترد کردی تھی۔ اس درخواست کے مسترد ہونے پر حکومتی وکلا نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ وزارت علیاپنجاب کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔ وفاق میں قائم مخلوط حکومت کو ضمنی انتخابات کے بعد لگنے والا دوسرا دھچکا ہے۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات بھی سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحرانوں کا ایک حصہ تھا۔ اس وقت کی حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے تحریک انصاف میں نقب لگائی تھی جس کے بعد وہ اتحادی جماعتوں کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس اقدام نے پاکستان تحریک انصاف کی ایک اہم کلیدی اتحادی جماعت کو تقسیم کردیا۔ اسی تقسیم کی وجہ سے آخری وقت میں پارٹی کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کی مدد نہیں کی اور آخری وقت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کو خط روانہ کردیا تا کہ وہ میاں حمزہ شہباز کی وزارت علیا برقرار رکھ سکیں، لیکن یہ تدبیر مسلم لیگ (ن) کے کام نہیں آئی۔ اور وہ پنجاب میں شریف خاندان کے وارث کا اقتدار بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور آئینی بحران میں اضافہ کرے گا، تقسیم شدہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تقسیم گہری ہوتی چلی جارہی ہے اور سیاسی بحران کے لیے پیچیدگیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت کو بھی دھچکا لگا ہے۔ مسلم لیگ (ن) وفاق میں تو برسراقتدار ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے کے اقتدار سے محرومی جو ملک کے اقتدار کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے نیا امتحان بن گیا ہے۔ تازہ منظرنامہ ہے کہ ملک کا اقتصادی بحران قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کا اقتصادی بحران، عالمی اقتصادی بحران سے بھی جڑ گیا ہے، اسی کے ساتھ خطے کی عالمی سیاست میں تبدیلیاں تیزی سے پیش آرہی ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجیوںکے انخلا کے بعد نئے مسائل درپیش ہیں۔ ہمارے ریاستی ادارے بلوچستان کے بحران کا کوئی حل نکال نہیں پائے ہیں۔ طاقت استعمال کرنے اور بات چیت و مذاکرات دونوں حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے۔ قبائلی علاقوں کے مسائل بھی برقرار ہیں۔ تمام ریاستی ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ (بیوروکریسی و فوج) اپنا اعتبار اور ساکھ مجروح کرچکے ہیں۔ پارلیمان کی بالادستی کا علم بردار سیاسی طبقہ ملک کے مسائل کا ذمے دار ہے۔ عام آدمی کے دل و دماغ میں جو اضطراب پیدا ہورہا ہے، جوکون سی خطرناک صورت اختیار کرے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔