اسلام آباد: ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کی پبلک اکانٹس کمیٹی میں طلبی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی پبلک ڈومین میں وہی درخواست دیکھ سکتی ہے جو فنانس سے متعلقہ ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پی اے سی فنڈنگ اور فنانس سے متعلق بلائے تو کوئی ایشو نہیں ، سوال صرف اتنا ہے کہ اس معاملے میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا دائرہ اختیار ہے ؟ یہ کورٹ یہ پٹیشن سنتے ہوئے کیا کسی کو سزائے موت دے سکتی ہے ؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفاد عامہ میں کوئی درخواست آئے تو پبلک اکائونٹس کمیٹی دیکھ سکتی ہے۔
جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پبلک اکانٹس کمیٹی پبلک ڈومین میں وہی درخواست دیکھ سکتی ہے جو فنانس سے متعلقہ ہو ۔ ہر ادارے کی اپنی عزت ہے پارلیمنٹ ہو یا عدلیہ ۔
ڈی جی نیب کے وکیل نے کہا کہ میرے کلائنٹ کو پی اے سی کے سامنے پیش ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ عدالت گزشتہ اجلاس کے میٹنگ منٹس پیش کرنے کی اجازت دے ، عدالت دیکھے کہ انہوں نے کس طرح سے جواب دئیے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جو پٹیشن منظور ہوئی، اس میں، میں بھی وکیل تھا۔
گزشتہ روز کی پٹیشن کے بعد سپریم کورٹ سے قابل سماعت کا معاملہ طے ہوگیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ نیب کو فنڈنگ کے معاملات میں اگر بلایا جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن جہاں دائرہ اختیار کا ایشو ہو تو عدالت نے دیکھنا ہے۔ اکائونٹس کے علاوہ جو کر رہے ہیں کیا یہ ان کا دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں ، قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لاہور ہائیکورٹ کی ججز اور وکلا کی لائبریری ہمارے ہاں سے بہتر ہے ۔
عدالت نے فریقین کو آئندہ سماعت پر درخواستیں قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے قائم مقام چیئرمین نیب کی درخواست پر بھی سیکرٹری قومی اسمبلی و دیگر کو نوٹس جاری کردئیے۔
عدالت نے بلانے پر کوئی تادیبی کارروائی نہ کرنے کے حکم میں آئندہ سماعت تک توسیع کردی۔عدالت نے چیئرمین نیب، ڈی جی نیب کی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور طیبہ گل ہراسگی درخواست سننے کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے دائرہ اختیار سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 11 اگست تک ملتوی کردی۔