لاہور:وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع کی گئی اور مسلم لیگ ق کے 10 ووٹ مسترد کیے جانے کے بعد حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوگیا۔
صوبائی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت 3 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، جس کے بعد ارکان اسمبلی نے ابتدائی کارروائی کے بعد ووٹ ڈالنا شروع کردیے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ایوان کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا تھا۔ قائد ایوان کے لیے مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز اور ق لیگ کے پرویز الٰہی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ اس سلسلے میں دونوں جانب سے مطلبہ نمبر گیم پورے ہونے کے دعوے کیے جا رہے تھے۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس چار بجے شام شروع ہونا تھا تاہم ڈھائی گھنٹہ تاخیر کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی، جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے اسے توہین عدالت قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرانے کا اعلان کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل چوہدری نے کہا کہ اسمبلی اجلاس میں تاخیر پر کچھ دیر میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کررہے ہیں، اجلاس میں تاخیر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
پی ٹی آئی نے 186ارکان اسمبلی کو کمیٹی روم میں پہنچانے کا دعویٰ کیا اور ارکان اسمبلی کو کمیٹی روم سے باہر نہ آنے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق پرویز الٰہی کے حق میں 186 ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں۔ حمزہ شہباز کے حق میں 179 ووٹ کاسٹ ہوئے۔
ق لیگ کے 10 ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور راہ حق پارٹی نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔ پنجاب اسمبلی میں پہلا ووٹ زین قریشی نے کاسٹ کیا جبکہ ملک اسد کھوکھر نے حمزہ شہباز کو پہلا ووٹ دیا۔
ووٹوں کی گنتی کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے نتیجہ جاری کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی نے 186 ووٹ لیے جب کہ مسلم لیگ ن نے 179 ووٹ لیے۔ علاوہ ازیں ڈپٹی اسپیکر نے چودھری شجاعت حسین کی جانب سے بھیجا گیا خط بھی پڑھ کر سنایا۔ جس میں انہوں نے ق لیگ کے ارکان کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔
خط کا متن سنانے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے ووٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ق کے تمام کاسٹ ووٹ مسترد کرتا ہوں۔ جس کے بعد اعداد و شمار کے مطابق حمزہ شہباز کو 3 ووٹوں کی برتری حاصل ہو گئی۔