سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے میں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کی درخواست پر توہین عدالت کے ٹھوس شواہد طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
پرویز الہیٰ کے وکیل فیصل چوہدری نے رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس اورٹی وی ٹاک شو میں انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ پڑھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ رانا ثنا اللہ نے کہا 5 بندے ادھر ادھر ہو جائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ توہین عدالت کہاں ہوئی ہے یہ بتائیں، مفروضوں پر تو ہم توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتے۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ن لیگی ایم پی اے راحیلہ نے بذریعہ عطا تارڑ پیسے دینے کے لیے ایم پی اپز کو کال کی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی بھی بیان حلفی پر تاریخ درج نہیں کہ کب کال کی گئی، تینوں بیان حلفی میں ایک ہی قسم کی زبان استعمال کی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عطا تارڑ اور ایم پی اے راحیلہ کے خلاف کوئی توہین عدالت کی درخواست نہیں دی گئی، کیسے تسلیم کر لیں کہ کالز کی گئیں اور پیسے آفر کیے گئے۔
پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ اب تک الیکشن کمیشن نے منتخب ہونے والے اراکین کا نوٹیفیکیشن نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حکم کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل الیکشن کمیشن نوٹیفیکیشن کا پابند ہے، اگر الیکشن کمیشن نوٹیفیکیشن نا کرے تو ہمارا دروازہ کھٹکھٹائیں۔