حقوق کراچی اور انفاق

1283

کراچی کے حقوق کی جدو جہد کراچی والوں کے لیے جان سے مال سے وقت سے اور سیاسی تدابیر سے کرنے کو تیار جماعت اسلامی کے رضا کار اس مد میں ان تمام اللہ کے دین کے رضاکاروں کے سیاسی اور اقامتی کاموں کے لیے نہ تو بیرون ملک سے ’’فنڈنگ‘‘ کے نام پر امداد آتی ہے اور نہ ہی اندرون ملک ’’پرچیوں‘‘ کی کمائی سے جھنڈے اور ڈنڈے کرسیاں، ٹینٹ، قناتیں خریدنے کے وسائل ہیں ایسے میں اہل کراچی اور اندرون و بیرون ملک رہنے والے تمام کراچی سے پیار کرنے والوں سے گزارش ہے کہ آئیں اور کراچی کو روشن شاداب بنانے والی جماعت اسلامی کے ہاتھ مضبوط کریں یہ وقت اور ذی الحجہ کا ماہ مبارک آپ کو انفاق فی سبیل اللہ کے لیے صدا دے رہا ہے آگے بڑھ کر رب العالمین کی جنت کے وعدوں پر انفاق کیجیے یقین جانیے کہ اس انفاق سے کراچی کو حقوق بھی ملیں گے اور دنیا میں جنت نظیر کراچی بنانے کا عزم رکھنے والوں کی مدد پر اللہ سبحان و تعالیٰ کی قائم کردہ دائمی اور ابدی جنت بھی ملے گی۔ یہ ہمارا نہیں اس رب العالمین کا وعدہ ہے کہ جو انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ہر مومن کے لیے ہے۔ جلدی کیجیے کہیں دیر نہ ہو جائے وقت کی برف پگھلنے کو ہے 24 جولائی سے پہلے حق وباطل کے اس معرکے میں حق کی فتح کے لیے جو کچھ لگا سکتے ہیں لگا دیجیے یہ کہہ کر کہ
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
میرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
عالیہ زاہد بھٹی
جماعت اسلامی کی برائی یا خوبی
’’کچھ بھی کرلو جماعت اسلامی الیکشن جیت ہی نہیں سکتی‘‘۔ چوھدری صاحب نے حتمی لہجے میں کہا تو مرزا صاحب نے حیرت سے ان کو دیکھا۔
’’اتنا یقین کیوں بھائی۔ کیا کمی ہے ہماری جماعت میں۔۔؟‘‘
’’یہی تو ساری بات ہے کہ کوئی کمی ہی نہیں ہے، اسی لیے تو نہیں جیت سکتی اور نہ ہی حکومت کر سکتی ہے‘‘۔ چودھری صاحب ایک بار پھر حتمی لہجے میں بولے
’’ارے صاحب وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کیوں الیکشن نہیں جیت سکتی، کیوں حکومت نہیں کرسکتی، آخر کیا وجہ ہے، کیا جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے بڑی خیر خواہ نہیں ہے؟‘‘
’’وہی تو تم کو سمجھارہا ہوں کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے بڑی خیر خواہ ہے تبھی نہیں جیت سکتی‘‘۔ ان کی اس بات پر مرزا صاحب نے گھور کر دیکھا تو چودھری صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولے
’’دیکھو بھائی ناراض نہ ہو، اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی سب سے شر یف پارٹی ہے اور شریفوں کا سیاست میں کیا کام!! دوسرے یہ کہ وہ پاکستان سے مخلص ہے، جو امریکا کو گوارا نہیں، تیسرے اس جماعت کے پاس کرائے کے غنڈے نہیں سارے ہی شریف اور پڑھے لکھے شامل ہیں۔ چوتھے کرائے کے ووٹر نہیں، پانچویں عورتیں بھی سب باپردہ رہ کر کام کرتیں ہیں، چھٹے یہ کہ ہر مسئلہ کا پرامن حل نکالتے ہیں، دھرنا دیتے ہیں تو پرسکون ماحول ہوتا ہے کسی کو کوئی تکلیف ہی نہیں ہوتی، الٹا اور سب کی مدد ہی ہوجاتی ہے۔ پھر کہیں قدرتی آفت آ جائے تو سب سے پہلے یہ مدد کو پہنچ جائیں گے۔ دین کو یہ ساتھ لے کر چلیں گے۔ اب تم خود سوچو کبھی دیکھے ہیں ستر پچھتر سال میں ایسے حکمران؟‘‘
اور مرزا صاحب ان کی شکل دیکھ رہے تھے کہ یہ جماعت اسلامی کی خامیاں گنوانا چاہ رہے تھے یا خوبیاں۔
م۔ ش