یہ موضوع بڑا نازک اور بے حد حساس ہے۔ لہٰذا اس پر لکھتے ہوئے بارہا سوچنا پڑا کہ کہیں ’’ٹھیس نہ لگ جائے آب گینو کو‘‘ لیکن اس موضوع پر لکھے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔
اس حقیقت سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں کہ وطن عزیز کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ایک ایسا بے نظیر اور بے مثال صوبہ ہے جہاں مختلف زبانیں بولنے والے افراد اہل سندھ کی رواداری، وسیع القلبی اور وسیع النظری کی بنا پر باہم یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں۔ بلکہ اب تو ان کے مابین رشتے ناتے اور شادی بیاہ کے معاملات بھی ہونے لگے ہیں۔ بیرون صوبہ سے آنے والے افراد کو سندھ میں مستقل قیام کیے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں تو اپنی مادری زبان بولتے ہیں لیکن جب وہ سندھی میں لکھتے، بولتے اور پڑھتے ہیں تو ان پر اہل زبان کا گمان ہونے لگتا ہے بیش تر حضرات پر قدیم سندھی بھی رشک کیا کرتے ہیں۔ باہم اکٹھے رہنے کی وجہ سے مزید یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے بڑے تو بڑے بچے بھی سندھی اپنی مادری زبان کی طرح ہی بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض امور میں اختلاف کا ہونا عین فطری ہے۔ کسی معاملہ پر ان کے بیچ بحث مباحثہ بھی ہوجاتا ہے لیکن اس میں شادو نادر ہی تلخی جنم لیتی ہے۔ یہ اتحاد، یہ اتفاق، یہ ہم آہنگی اور یک رنگی ان معدودے چند عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ان عناصر کی تنگ نظری اور تنگ دامانی کو یہ بات بالکل گوارا نہیں ہوتی کہ ساری فضا اور ماحول اس قدر خوش گوار اور دل افروز ہو اس لیے وہ گاہے گاہے اس میں زہر ڈالنے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اور اگر سوئے اتفاق کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو وہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں لگ جاتے ہیں تا کہ خوش گوار فضا اور ماحول کو مکدر کرکے اپنے دیرینہ مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔ یہ شرپسند اور فتنہ پرداز عناصر سندھ میں مستقل آباد مختلف زبان بولنے والے افراد کے درمیان اتفاقاً، دانستہ یا غیر دانستہ کسی ذاتی نوعیت کے جھگڑے کو بھی جان بوجھ کر لسانی اور قومی نوعیت کی لڑائی کا رنگ دینے پر تُل جاتے ہیں۔ اہل سندھ کی اکثریت ان سے عاجز اور بے زار ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ پیر اور منگل کی
درمیانی شب کو قاسم آباد حیدر آباد کے علاقے وادھو واہ بائی پاس پر قائم ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کے دوران مبینہ طور پر اس ہوٹل کے بیرے کی جانب سے بدتمیزی کرنے کی وجہ سے گاہکوں اور ہوٹل کے مالک کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی جس نے بتدریج خوفناک اور خون ریز تنازعے کی شکل اختیار کرلی یہ دونوں فریقین کے بیچ ایک دوسرے پر لاٹھیوں اور سریوں کے ساتھ حملے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد دونوں جانب سے بذریعہ آتشیں اسلحہ ایک دوسرے پر فائرنگ کی جانے لگی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔ اطلاع کے مطابق بھٹائی نگر قاسم آباد کی حدود میں واقع سلاطین ہوٹل پر 35 سالہ نوجوان ہلاک ہوا اس کا نام بلاول کاکا ولد حسیب گل تھا اور وہ نیو سعید آباد کا رہائشی تھا۔ اس المناک واقعہ کے بعد مرحوم نوجوان کے ورثا نے اس کی لاش کو قومی شاہراہ پر 7 گھنٹے تک رکھ کر قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لیے احتجاجی دھرنا دیا جس کے بعد مقامی تھانہ کی پولیس نے واقعہ کا مقدمہ ہوٹل کے مالک شاہ سوار پٹھان ماجد یار پٹھان اور دیگر 10 نامزد ملزمان کے خلاف درج کرنے کے بعد ہوٹل مالک کو حراست میں لے لیا۔
ہوٹل مالک اس کے ساتھیوں کے الزام کے مطابق مقتول نوجوان اور اس کے زخمی ساتھی گزشتہ کافی عرصے سے زبردستی بغیر بل ادا کیے کھانا کھایا کرتے اور ان سے بدتمیزی بھی کیا کرتے تھے۔ وقوعہ کے وقت بھی مبینہ طور پر یہی کچھ ہوا جب نوجوان اور اس کے ساتھیوں سے ہوٹل مالک نے بل کی ادائیگی کا تقاضا کیا، عدم ادائیگی پر جو جھگڑا شروع ہوا وہ نوجوان بلاول کاکا کی افسوس ناک موت پر منتج ہوا۔ دونوں فریقین کی جانب سے پولیس پر نااہلی اور غفلت برتنے کا الزام عائد کیا گیا ہے دو موبائلوں میں موجود پولیس افسران اور اہلکار ساری خونیں لڑائی خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔ مبینہ طور پر اگر مقتول بلاول کاکا نے بل کی رقم طلب کرنے پر ہنگامہ آرائی کی بھی تو آخر بدلے میں ہوٹل کے مالک کو یہ اختیار کس نے دیا تھا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے نوجوان کو قتل اور اس کے ساتھیوں کو زخمی کردے۔ لیکن برا ہو ان فتنہ پرداز اور شرپسند عناصر کا جو اس نوع کے کسی واقعہ کی تاک میں لگے رہتے ہیں تا کہ وہ اس سے اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرسکیں۔ ماحول کو کشیدہ اور سنگین اور گمبھیر بنا کر اپنی سیاست چمکا سکیں۔ اس ذاتی نوعیت کے افسوس ناک جھگڑے کو جواز اور بہانہ بنا کر دوسرے روز شرپسند عناصر نے اس کو لسانی رنگ دینے کی مذموم سعی کی اور سندھ کے مزید شہروں میں قائم چائے کے کوئٹہ اور اس طرح کے ناموں والے ہوٹلوں پر پہنچ کر وہاں موجود عملے کو ہراساں اور خوف زدہ کرکے ہوٹل بند کرادیے اور آئندہ ہوٹلوں کو کھولنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں، ہر شہر میں ہر چند کہ یہ عناصر بہت تھوڑے تھے اور سندھ کی اکثریتی آبادی نہ صرف ان سے بالکل لاتعلق رہتی ہے بلکہ اس نے محنت کشوں کو ہراساں کرنے والے فتنہ پرداروں کی شدید مذمت بھی کی، تاہم شرپسندوں کی مذموم سرگرمیوں کا منفی اثر مرتب ہو کر رہا اور اس کے ردعمل میں سندھ سے جانے والے مسافروں کو بلوچستان میں ژوب وغیرہ کے مقام پر گاڑیوں سے اُتار کر شرپسندوں نے ان سے تلخ کلامی کی۔ سندھ میں مختلف مقامات پر شرپسندوں نے روڈ رکشوں کو بطور احتجاج بند کرنے کی کوشش کی۔ ہر دو جانب سے نام نہاد فیس بک کے دانشوروں کے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے فضا کو مزید آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا پر فعل وابستگان نے سچ تو یہ ہے کہ انتہائی مثبت کردار ادا کیا اور کشیدہ ماحول کو بہتر بنانے کے لیے قابل صد تحسین مہم چلائی۔ شرپسندوں نے اندرون سندھ سے کراچی آنے والی ٹرانسپورٹ اور سپرہائی وے اور سہراب گوٹھ کے مقام پر روک کر بلاوجہ ہی بے چارے مسافروں کو ذہنی اذیت اور کوفت سے دوچار کیا۔
دریں اثنا یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ ہوٹل پر ذاتی نوعیت کی لڑائی میں مرنے والے مقتول نوجوان بلاول کاکا پر کئی تھانوں میں پہلے سے کئی مقدمات کا اندراج بھی تھا۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ تمام تر ابتر صورت حال اور ہنگامہ آرائی کے باوجود حکومت سندھ، پولیس اور سیکورٹی ادارے عملاً غیر فعال دکھائی دیے اور امن وامان کو بہتر بنانے میں ان کی عدم دلچسپی واضح طور پر محسوس کی گئی۔ بعد میں عوام اور میڈیا پر جب احتجاج کیا گیا کہ حکومت کہاں ہے؟ تو انہیں قدرے متحرک اور فعال دیکھا گیا۔ سندھ میں گزشتہ کافی عرصے سے لسانی ہم آہنگی کی فضا برقرار تھی۔ کچھ عرصہ پیش تر کراچی میں ایک نوجوان ارشاد روجھانی، رحیم شاہ نامی شخص کی فائرنگ سے اپنی جان سے چلا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے وقتی طور پر ماحول کشیدہ ہوگیا تھا۔ اہل سندھ کے خمیر میں محبت، وضع داری، مہمان نوازی، وسیع القلبی اور وسیع النظری شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں ہر رنگ، نسل اور زبان کے افراد بہت بڑی تعداد میں پرامن انداز میں رہتے چلے آئے ہیں اور اب بھی رہ رہے ہیں۔ جنہیں یہاں ملازمت، کاروبار اور رہائش پزیر ہونے کا حق حاصل ہے۔ اہل سندھ کو اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ دیگر ممالک سے بھی بے دھڑک اور بغیر روک ٹوک جو افراد آجاتے ہیں اس سے مقامی آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے اور بہت سارے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اہل سندھ اپنے صوبہ میں پیدا اور دریافت ہونے والے قدرتی وسائل کا اپنے ہی صوبہ میں استعمال کرنے کا جائز اور بجا مطالبہ کرتے ہیں۔ سندھ میں بیرون صوبہ سے آنے والے افراد جس طرح غیر قانونی طریقے سے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل بنوا کر ملازمتیں لے لیتے ہیں جس سے مقامی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان احساس محروم میں مبتلا ہورہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو اہل سندھ کو لاحق جائز خدشات، خطرات اور تحفظات کے تدارک کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ آئندہ شرپسند عناصر ذاتی نوعیت کے جھگڑے کو لسانی رنگ دے کر اپنے مذموم دیرینہ مقاصد کی تکمیل کے لیے فتنہ پرداری نہ کرسکیں۔ اسی میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہے۔