از مکافات ِ عمل غافل مشو (آخری حصہ)

772

یہ مْکَافَاتِ عَمَل کی دنیا ہے، جو کچھ بویا جائے گا اُسے ہی کاٹنا ہوگا۔ اسی طرح جو آج طاقت و اقتدار کے نشے میں چور اور اندھے ہوئے پڑے ہیں، انہیں بھی جلد خوابِ غفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے، ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ورنہ کل کو ان کے ساتھ کیا ہوگا اسے تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا، بلکہ شاید اس سے بڑھ کر بھی ہو۔ تب ان کے پاس سوائے رسوائی اور پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔ اسی پس منظر میں مرحوم راحت اندوری نے کیا خوب شعر کہا تھا ؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
میانمر کی فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے لیا ہے۔ آنگ سان سوچی کی حکومت نے مسلم کش فسادات کی نئی لہر کے ذریعے مسلمانوں کے متعدد مکانات اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد بتا کر ظلم و جبر کے انسانیت سوز پہاڑ توڑے۔ مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام کیا گیا۔ عورتوں کی عصمتوں کو لوٹا گیا۔ لیکن یہاں بھی مْکَافَاتِ عَمَل کا جن بوتل سے باہر آہی گیا۔ اور اس جن نے آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پڑوسی ملک پاکستان کے معاشی حالات بھی بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، کاروبار غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ یہ معاشی حالات سماجی انحطاط کی علامتیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کی صورتحال سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہاں بھی باطل قوتوں کے ہمنواؤں کو حکمرانی کے مناصب پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔ جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتی آئی ہے۔ اس ملک میں بھی مْکَافَاتِ عَمَل کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ حالیہ صورتحال سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ افراط زر کا شکار پڑوسی ملک سری لنکا کا ہم جائزہ لیں، وہاں کے اہل اقتدار طبقے نے کیسے عوام کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی بحرانی کیفیت و تنزلی کے عمیق سمندر میں غرق کردیا ہے۔ آج وہی اندھ بھکت، بے بس و مظلوم عوام کیسے اہل اقتدار لوگوں سے اپنے ظلم کا بدلہ لے رہی ہیں۔ سری لنکا کے بپھرے ہوئے عوام نے حکمران خاندان اور طبقات کے خلاف تمام ادب آداب کو پس پشت ڈال کر صدارتی محل کو نشانِ عبرت بنادیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے والے طبقوں نے مذہبی قائدین کے اشارے پر مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا تھا، وہاں بھی حکومتی شئے پر کبھی حجاب، تو کبھی مساجد کو ہدف بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضاء کو گرمایا گیا، لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی رہی، ان شرپسندوں پر لگام لگانے کے لیے وہاں کی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا تھا۔ آج جب کہ وہاں بدترین معاشی بحران جاری ہے کیا اس سے ہمارے حکمراں کوئی سبق لینے کے لیے تیار ہے؟ اسی نوعیت کی صورتحال ہمارے یہاں پنپ رہیں ہیں، عن قریب ہمارے یہاں کا منظرنامہ بھی کہیں ویسا نہ ہو۔ جس کے آثار بہت نمایاں نظر آرہے ہیں۔ مْکَافَاتِ عَمَل کی چکی میں ظالم و جابر ضرور پس کر رہتے ہیں، وہ چکی کسی کا انتظار نہیں کرتی!!! وقت آنے پر سارے بدلے اتار دیتی ہے۔
شیخ سعدی شیرازی کا فرمان ہے: ’’تم چاہے جتنی مرضی ترقی کر لو مگر یہ یاد رکھنا کہ تمہاری منزل کا راستہ دوسروں کے دلوں کو توڑتا اور روندتا ہوا نہ گزرے‘‘۔ یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ جس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے وہ بدلے میں نیک سلوک کرے۔ اپنے اعمال کا بدلا بندے سے نہیں اپنے ربّ سے مانگو جو بہترین صلہ دینے والا ہے نیکی کرکے آگے بڑھ جاؤ، اسے دل کے کسی گوشے بھی یاد نہ رکھو۔ یاد رکھنے سے دل میں غرور و آنا اور فخر و تکبر گھر کر جائے گا۔ جس کے نتیجے میں نیک اعمال اکارت ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ چلتے پھرتے نیکیوں کا بیج بوتے ہیں ان کی مشکلیں ایسے حل کر دی جاتی ہیں کہ وہ خود حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم اس مشکل سے کیسے آسانی سے نکل گئے۔ عصرِ حاضر میں انسان اپنی انا، ہٹ دھرم فطرت، تکبر و غرور اور اقتدار کے نشے میں یہ بھول جاتا ہے کہ جو ظلم، زیادتی اور ناانصافی وہ اپنے ساتھ یا دوسرے انسانوں کے ساتھ کر رہا ہے اس کا جواب بھی آخرت میں دینا پڑے گا۔ لیکن آخرت سے پہلے بھی بعض اعمال حساب دنیا میں ہی دینا ہے۔ اعمال نیک ہوں یا بد انسان کو ہر عمل سے پہلے یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ ہمارا ہر عمل آخرت کے لیے بویا جا رہا ہے جس کی کچھ کاشت زمین پر بھی کاٹنی ہوگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو عمل صالح کرنے والا بنائے۔ زندگی کے ہر مقام پر جائزہ لینا والا بنائے۔ مْکَافَاتِ عَمَل کی اس دنیا میں ہماری رہنمائی فرما۔ آمین
تقدیر ہے اک نام مْکَافَاتِ عَمَل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایانِ ہمالہ