بند ہو گئیں آنکھیں تیری راہ تکتے تکتے

607

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کی وفات کا سن کر دل بھاری سا ہو گیا۔ اس ماں کی مامتا کے سامنے کسی نہ کسی صورت میں اپنا آپ مجرمانہ سا محسوس ہونے لگا۔ آئے روز کسی نہ کسی کی وفات کا سنتے ہیں لیکن اس موت کا سن کر دل گھٹ کر رہ گیا۔ پہلا خیال یہی آیا کہ بیٹی کا انتظار کرتے کرتے ماں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں لیکن ہم سب گھوڑے بیچ کر سوئے رہے۔ ماں کے دل کی تڑپ نے عرش کا سینہ چیر دیا مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ بیٹیوں والے والدین ذرا اپنے اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ ایک ماں جب یہ سنتی ہے کہ میری بیٹی غیروں کے ہاتھوں میں ہے اور اس پر ہر طرح کا ظلم کیا جارہا ہے تو اس بے بس ماں پر کیا بیتتی ہو گی۔ کیا وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر چیختی نہ ہوگی۔ کیا وہ اپنے رب سے فریاد کناں نہ ہوتی ہو گی اور اللہ تعالیٰ تو ہر مظلوم کے ساتھ ہے۔
عافیہ صدیقی کو بھی غیروں کے ہاتھوں میں دینے والے ہمارے اپنے ہی لوگ تھے۔ پاکستان کی قابل ترین بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نیورو سائنٹسٹ ہے جسے 2003ء سے اغوا کرکے امریکی حکومت نے جبراً غیر قانونی طور پر قید کیا ہوا ہے اور اس پر مسلسل امریکی خفیہ و خوفناک ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے ظلم و جبر کیا جارہا ہے۔ اسے اپنی قید میں رکھنے کے لیے بے بنیاد الزام لگائے۔ امریکی عدالت میں مقدمہ چلا کر 86 سال قید سنا دی گئی اور یہ قید 30 اگست 2083ء کو ختم ہوگی۔ افسوس ہے امریکی عدالت کے اس انصاف پر اور اس پر خاموش رہنے والوں پر۔ پھر یہ 2000ء کا عشرہ ہی تھا جب جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کے مقابلے میں جدید اسلحہ سے لیس فوج کھڑی ہوگئی۔ ان بچیوں پر گولیوں کی برسات کی گئی۔ یہ معصوم بچیاں اپنے آزاد ملک میں کسی دہشت گرد نہیں بلکہ اپنے وطن کی سرحدوں کے محافظوں کے ہاتھوں سے گولیوں بارود سے چھلنی کر دی گئیں۔ پھر اسی زمانہ میں ماؤں کے شریف، با اخلاق، جوان بیٹے جن کو دیکھ دیکھ کر وہ جیتی اور ان پر فخر محسوس کرتی تھیں، راتوں رات غائب کر دیے گئے کچھ بعد میں دلدوز حالت میں ملے اور اتنے سال گزرنے کے باوجود اکثر کا ابھی تک علم نہیں۔ مجھے تو کبھی وہ ڈاکٹر جاوید بھی نہیں بھولے جو اتنا قابل اور تجربہ کار ڈاکٹر ہونے کے باوجود لاہور کے ایک چھوٹے سے قصبے مناواں کے مناواں اسپتال میں صرف دس روپے کی پرچی پر بیٹھتا۔ وہ غریبوں کی امنگوں کا ستارہ تھا، ان کے لیے شفایابی کی امید تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر وہ چیک اپ کی دس ہزار فیس بھی رکھے تو لوگ انہیں اتنی فیس دے کر بھی چیک کروائیں گے لیکن اس مرد درویش نے بے نظیر قابلیت کے باوجود اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے اسپتال میں غریبوں کے لیے وقف کردیا۔ ان کا کسی سے کوئی ذاتی عناد نہیں تھا۔ صرف افغانی طالبان کا علاج کرنے کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی اس دور میں ملکی سطح پر کئی کارنامے انجام دیے گئے۔ لکھنے بیٹھوں تو اوراق کم پڑ جائیں۔ یہ سب مشرف دور کی مہربانیاں تھیں جو بھلائے نہیں بھول رہیں۔ اس دور کے مظلوم ابھی بھی سسکتے ہیں۔
سنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جس نے بلا شرکت غیرے کئی سال پاکستان پر حکومت کی۔ جس کے چمچے اسے بار بار وردی میں منتخب کرنے کا عندیہ دیتے تھے۔ جو اپنے آپ کو آفاقی قوتوں اور آہنی ارادوں کا مالک سمجھتا تھا، آج کل ایک لاعلاج مرض کے ساتھ دبئی کے ایک اسپتال میں شدت تکلیف کے ساتھ اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے۔ جس امریکا کو خوش کرنے کے لیے اپنی دنیا و آخرت خراب کی اس نے اس کے علاج سے سب سے پہلے منہ موڑا۔ علاج کے لیے جب پرویز مشرف نے اپنا پاسپورٹ امریکا بھجوایا تو امریکی ایمبیسی نے اسے ویزا ہی نہیں دیا کیونکہ یو اے ای اور لندن کے ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی سمجھ ہی میں نہیں آ رہی تھی اور سننے میں تھا کہ امریکا میں اس عجیب و غریب بیماری پر ریسرچ ہوئی ہے۔ مہربانی یہ ہوئی کہ بیماری کی رپورٹیں امریکا چلی گئیں۔ امریکا رپورٹ جانے کے بعد امریکی ڈاکٹروں نے اسے Amyloidosis نامی بیماری کی تشخیص کی۔ اس بیماری کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ پروٹین سے پیدا ہونے والی یہ بیماری جسم کے جس عضا میں بھی چلی جائے اس عضا کو کھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں انسان آہستہ آہستہ ایسی کیفیت میں چلا جاتا ہے کہ نہ کچھ کھا سکتا ہے نہ پی سکتا ہے۔ اس بیماری میں مریض زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے وہ صرف تکلیف برداشت کرتا ہے بول نہیں سکتا، بتا نہیں سکتا، واویلا اور شور نہیں مچا سکتا۔ وہ اپنے پیاروں کو صرف دیکھتا ہے انہیں اپنے دل کی کیفیت سے آگاہ نہیں کر سکتا۔ ایسی ہی دردناک و کرب ناک کیفیت میں ہمارے سابقہ جنرل پرویزمشرف گزر رہے ہیں۔ یہ تکلیف کا وہ درجہ ہوتا ہے جہاں اکثر انسان اپنے لیے خود موت طلب کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن موت تو اس کے ہاتھ میں ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اقتدار و اختیار کے نشے میں چور ہمارے ارباب اختیار کو اپنے اردگرد سے نصیحت و عبرت پکڑنی چاہیے۔ پاکستان کے معاملے میں اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ مظلوم لوگوں کی سسکیاں اور آہیں انہیں جھکڑ لیں اور وہ کسی ایسی دردناک کیفیت میں چلے جائیں جہاں وہ اپنے لیے موت مانگیں اور ان کے حق میں، ان کی راحت کے لیے، رب کے سامنے دعا کرنے کے لیے کسی کے ہاتھ بھی نہ اٹھیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار