کشمیریوں کی ابتلا و آزمائش کٹھن سے کٹھن

899

ماہ وسال کو ایک صدی ہونے کو پہنچی کشمیریوں کی ابتلا و آزمائش کٹھن سے کٹھن تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نماز عیدین ہو یا عام دنوں کے اجتماعات کشمیر میں مسلم شناخت اور عبادات پر قدغن لگانے میں جبر و استبداد کے حربوں اور خون بہانے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔ 1931 میں 13 جولائی کا سانحہ جموں کشمیر پر مسلط ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ ڈوگرہ ریاست میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی بچی کھچی مسلم شناخت اور عبادات پر قدغن لگانے کی مکروہ سازشوں کا یہ وہ اندوہناک سلسلہ ہے جو آج تک جاری ہے۔ ہندو اکثریتی صوبہ جموں میں مسلمانوںکے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے یہ پے درپے حربے برسوں سے جاری تھے۔ سب سے پہلے جموں میں ہندوئوں نے قرآن پاک کی توہین کی جس پر جموں کے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے احتجاج وہڑتال کا اعلان کر دیا، جلوس نکالے جانے پر بھی مہاراجا پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس واقعہ کی اطلاع کشمیر میں سرینگر تک پہنچی تو وہاں بھی سخت ردعمل سامنے آیا مگر مہاراجا نے آنکھ اور کان اس معاملے میں بند کیے رکھے۔ اس کے بعد جموں کے ایک گائوں ڈگور میں مسلمانوں کو ان کی اپنی زمین پر مسجد بنا کر نماز ادا کرنے کی اجازت نہ دی گئی جس پر وہ سخت مشتعل تھے۔ اسی دوران 29 اپریل 1931ء کو جموں میں نماز عید کے اجتماع میں پولیس کی طرف سے امام صاحب کے خطبے میں مداخلت کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا جس نے جموں کشمیر کی سیاسی زندگی میں بھی زبردست تبدیلی کا راستہ کھول دیا۔ جموں شہر کی عیدگاہ میں مفتی محمد اسحاق نماز عید کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ پولیس سب انسپکٹر بابو کھیم چند نے انہیں جبراً ایسا کرنے سے روکا جس پر تنازع اٹھا اور ایک نوجوان میر حسین بخش نے حکومت کو برا بھلا کہہ ڈالا اور اس کی انسپکٹر سے لڑائی ہو گئی جسے پولیس پکڑ کر لے گئی۔ اس کے نتیجے میں مشتعل لوگوں نے عید کی نماز کے بعد ایک بڑا جلوس نکالا اور شہر میں شدید اشتعال کی لپیٹ میں آ گیا۔ اسی دوران مسلم عمائدین جن میں چودھری غلام عباس، سردار گوہر رحمن اور مستری یعقوب نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی کیونکہ حکومتی اقدامات مذہب میں بے جا مداخلت کا جواز بن رہے تھے۔ اسی طرح 4 جون 1931ء کو سینٹرل جیل جموں میں ہندو وارڈن لبھو رام نے ایک مسلم سپاہی فضل داد خان سے پنچ سورہ چھین کر اس کی بے حرمتی کی، جس پر اس نے مسلمانوں کی تنظیم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد 20 جون 1931ء کو پھر سرینگر میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا واقعہ رونما ہوا جس پر میر واعظ یوسف شاہ نے حضرت بل میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا جس میں ایسے واقعات کو ناقابل برداشت قرار دے کر حکومت سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
پے در پے ان واقعات کے خلاف سرینگر اور جموں میں آئے روز احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے کا سلسلہ چل نکلا۔ اسی دوران عبدالقادر نامی ایک نوجوان جو ایک انگریز فوجی افسر کے ساتھ سوات سے کشمیر سیرو تفریح کے لیے آیا تھا، خانقاہ معلی میں ایک ایسے احتجاجی جلسے میں شریک ہوا جہاں مسلم عمائدین مذہبی معاملات اور قرآن مجید کی بے حرمتی کے حوالے سے تقاریر کر رہے تھے۔ عبدالقدیر نے اچانک اٹھ کر مہاراجا کی حکومت کے خلاف سخت اشتعال انگیز تقریر کی جس پر اسے سی آئی ڈی والے گرفتار کرکے لے گئے۔ اپنی تقریر میں عبدالقدیر نے کشمیری مسلمانوں سے کہا کہ ہم ڈوگرہ سرکار کی مشین گنوں کا مقابلہ پتھروں سے کریں گے، ہم راج بھون کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے کیونکہ قرآن مجید کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ اس کی گرفتاری سے مزید اشتعال پھیلا تو اس کے مقدمہ کی سماعت جیل ہی میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کیس کی سماعت سینٹرل جیل سرینگر میں ہوئی تو وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آنے لگی۔ اس کی چوتھی پیشی پر 13 جولائی 1931ء کو ہزاروں لوگ جیل کے باہر جمع تھے جو اسلام زندہ باد، قدیر زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ سینٹرل جیل سرینگر کے باہر نہتے کشمیری اور مسلح ڈوگرہ سپاہی آمنے سامنے تھے۔ اس دوران مسلمانوں نے نماز کے لیے صف بندی شروع کر دی تو اذان کے لیے ایک نوجوان نے دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کی۔ ابھی پہلا جملہ اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ پولیس نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا۔ فوراً دوسرے جوان نے اس کی جگہ لی اور دوسرا جملہ مکمل کیا۔ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ یوں اذان کے ہر جملے پر ایک جوان اپنی جوانی قربان کرتا فدیہ راہ خدا ہوا۔ یوں 21 جوان اذان مکمل کر کے حیات جاوداں پا گئے۔ غالباً یہ دنیا کی واحد اذان ہے جس میں اللہ کا کا نام پکارتے ہوئے21 موذن جان قربان کر بیٹھے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
اس سانحہ کے ساتھ سرینگر میں کہرام مچ گیا۔ ان تمام شہداء کی نعشیں جامع مسجد میں لائی گئیں تو وہاں ہزاروں مردو زن جمع ہو گئے۔ جبکہ بعد میں جان دینے والوں کے بشمول شہداء کی تعداد 24 ہو چکی تھی۔ شہر میں کرفیو لگ چکا تھا۔ اس کے باوجود کشمیریوں نے اپنے ان شہیدوں کو نماز جنازہ کے بعد خانقاہ نقشبند کے احاطے میں دفن کیا جو آج بھی مزار شہدا کے نام سے مقبول و معروف ہے یہاں وہ 21 شہدا آرام کر رہے ہیں جنہوں نے کمزور ناتواں صدیوں کی غلامی سے پسے ہوئے دبے ہوئے کشمیریوں میں آزادی کی نئی روح بیدار کر دی۔ ان کے دلوں سے مہاراجا کا خوف نکل گیا اور کشمیر کے طول و عرض میں کشمیریوں کی سیاسی و مذہبی بیداری کی لہر نے جنم لیا۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے اس بات کی تصدیق کی ان شہدا میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے کمر (پیٹھ) پر گولی کھائی ہو سب نے سینے پر گولی کھائی۔ کشمیر کی موجودہ تحریک آزادی اسی 13 جولائی کی تحریک عزیمت کا حسین پرتو ہے۔ کشمیر 74 برس گزرنے کے باوجود اب کسی کی غلامی قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ وہ آج بھی سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے بھارت کے ظلم و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ کشمیر کی مائیں آج بھی اپنے جوان بیٹوں کو سجا سنوار کر میدان جہاد کی طرف روانہ کرتی ہیں اور اس جوش جذبہ اور محبت کے ساتھ ان شہدا کی میتوں، ان کے جنازوں کو کسی دولہا کی طرح سجا سنوار کر تدفین کے لیے روانہ کرتی ہیں۔ جب تک کشمیر کی مائیں ایسے غازی اور شہید پیدا کرتی رہیں گی۔ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کبھی ختم نہ ہو گی۔ مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر میں دیہات میں قصبوں میں آباد ان گنت مزار شہدا اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے اس کے بیٹوں نے اپنی جوانیاں لٹا دیں۔
جدید تاریخ میں 13 جولائی کے ان شہدا کی قربانی کو جو مقام حاصل ہے اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہر سال 13 جولائی کو جموں کشمیر میں ’’یوم شہدا‘‘ نہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ سرکاری اور نجی سطح پر خصوصی تقاریب میں ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ یہ قوم کے وہ محسن ہیں جنہوں نے نہتے، نحیف و نزار جسموں اور ناتواں وجود سے ڈوگر ہ سامراج کی مسلح فوجی طاقت کو للکار کر اس کے ظلم و درندگی کی ہوا اکھاڑ دی۔ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ڈوگرہ مہاراجا یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ ان مظلوم مسلمان کشمیریوں کو غلام بنا کر ان کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی آزادی کو سلب کر دے گا، مگر یہ اس کی بھول ثابت ہوئی۔ کشمیری مسلمانوں نے سیاسی، سماجی اور ثقافتی قدغن تو برداشت کر لی مگر جب بات ان کے مذہب پر آئی شعائر اسلامی کی ادائیگی پر آئی۔ قرآن مجید کے تقدس اور احترام پر آئی تو انہوں نے اپنے لہو سے حریت کی ایک نئی تاریخ لکھ دی جس کا سر عنوان 13 جولائی 1931ء بنا۔ 13 جولائی 1931ء کے بعد ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو کشمیریوں کی حالت زار کا احساس شدت سے ہوا اور انہوں نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لے اور ڈوگرہ مظالم کی تحقیقات کرائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ غلام کشمیری مسلمانوں کی سیاسی سماجی اور مذہبی آزادی کو یقینی بنائے۔ اس کے ساتھ کشمیر میں مسلمانوں کے اندر سیاسی تعلیمی اور سماجی بہبود کا احساس یوں اجاگر ہوا کہ انہوں نے براہ راست ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے جموں میں چودھری غلام عباس اور کشمیر میں شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مہاراجا کو مسلمانوں کے مطالبات سننے اوران پر غور کرنے کے لیے مجبور کر دیا یوں کشمیر میں سیاسی بیداری کی وہ لہر ابھری کے کشمیری مسلمان حکومت کے مظالم اور خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد ہو گئے۔