کراچی میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے پیپلزپارٹی کی حکومتی کار کردگی کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا مختلف اوقات میں شہر کے الگ الگ حصوں میں ہونے والی برسات نے پورے کراچی کو تالاب بنا کر رکھا دیا، اگر برسات کا یہ سلسلہ بیگ وقت پورے شہر میں ایک ساتھ شروع ہوتا تو یقینا عام انسان کی زندگی مفلوج ہوجاتی عید قرباں کے تینوں دن عوام نے جس اذیت میں سنت ابراہیمی ادا کی، جس طرح اپنی خوشیوں کو سندھ حکومت کی نااہلی میں برباد ہوتے دیکھا وہ افسوس کا مقام ہے۔ مسلسل دوسری بار وزیر اعلیٰ سندھ رہنے والے مراد علی شاہ تباہی کی اس گھڑی میں بھی سیاسی بیان د ینے سے باز نہیں رہے کہ جب تک برسات رک نہیں جاتی امدادی کام شروع نہیں کیا جاسکتا۔
محکمہ ٔ موسمیات نے برسات کا ایک اور انتباہ جاری کر دیا ہے جس میں مزید تباہی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ عوامی لیڈر ہونے کے دعوے دار چیئرمین پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول زرداری اپنے صوبے کو برسات کی اس مشکل گھڑی میں تنہا چھوڑ کر سیاسی منظر نامہ سے غائب رہے دوسری جانب پاکستانی قوم کو بھکاری مخاطب کرنے والے اپنے قیمتی کپڑے فروخت کر کے غریبوں کے گھروں میں آٹا ڈالوانے والے وزیر اعظم شہباز شریف کراچی کے عوام کو اس مشکل گھڑی میں بے یارومددگار چھوڑ کر وزیر اعظم ہائوس کے مزے لینے میں مصروف ہیں۔ کراچی میں ہونے والی چند روز کی برسات نے شہر کراچی اور اس میں بسنے والی تین کروڑ سے زائد آبادی کو مفلوج بنا دیا ہے مگر مفاد پرست سیاست دانوں کے ضمیر اس مصیبت کی گھڑی میں بھی سوئے ہوئے ہیں۔
شہر کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والی جماعت ایم کیو ایم تو ۲۲ اگست ۲۰۱۶ کو ہی اپنا سیاسی مینڈیٹ اپنے ہاتھوں سے دفن کر بیٹھی تھی اور مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس شہر کو جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایک مذموم سازش کے تحت لسانی بنیادوں پر نقصان پہنچایا جس میں ایم کیو ایم بھی برابر کی شریک رہی جمہوریت کو بچانے کی آڑ میں ایم کیو ایم ہر دور میں اپنے ضمیر اور کراچی کے عوام کے مسائل کو سیاست کی بھینٹ چڑھاتی آئی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا معاشی حب شہر کراچی مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ الطاف حسین کے بعد آفاق احمد، فاروق ستار، مصطفی کمال اور ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ تمام قیادت اس وقت تک کراچی کے مسائل پر سنجیدہ نہیں کیوں کہ یہ خود اگر سنجیدہ ہوتے تو آج ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کے بجائے اس شہر کے مسائل کے حل کی خاطر یکجا نظر آتے مگر افسوس کہ ایم کیو ایم ہر دور میں مزے لیتی آئی ہے مگر کراچی کے مسائل کو حل کرانے میں ہر صورت ناکام رہی ایم کیو ایم کی عوامی مسائل سے دوری بلدیاتی انتخابات میں یقینا ناکامی کا سبب ہوگی۔
اس وقت کراچی شہر مسائل کے سمندر میں ڈوب چکا ہے اس شہر کو اپنے مسائل کے حل کا کوئی کنارہ نظر نہیں آرہا اب اس شہر کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی ایم کیو ایم تحریک انصاف سب ناکام نظر آرہی ہیں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف وفاق میں براجمان رہنے کے باوجود اس شہر کے مسائل کو حل نہیں کر سکی ہیں۔ کراچی شہر ڈوبتا رہا مگر اس شہر کی برسر اقتدار جماعتیں سڑکوں سے غائب نظر آئیں البتہ کراچی کے چند علاقے جو کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کے ماتحت ہیں ان علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے کونسلر عوامی خدمات انجام دیتے رہے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے کارکن کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں طوفانی بارش میں عوام کی خدمت کے لیے سڑکوں پر تیار نظر آئے، سندھ پولیس بھی اس مشکل وقت میں عوام کی خدمت میں مصروف نظر آئی۔ کراچی شہر برسات میں ڈوبتا رہا عوام اپنے سیاسی نمائندوں کی راہ دیکھتے رہے مگر سندھ حکومت اور اس کے اتحادی ایم کیوایم سمیت سب مصیبت کی اس گھڑی میں عید قرباں منانے میں مصروف دکھائی دیے۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے ۱۸ جولائی تک برسات کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے اگر برسات کا سلسلہ جاری رہا اور حکومت وقت کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو یقینا شہر کراچی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاجر برداری جس کو اس وقت سخت مشکلات اور مزید نقصان کا خدشہ ہے جن کا مطالبہ ہے کہ کراچی شہر کو آفت زادہ قرار دیا جائے اس وقت پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو اپنے پُرسکون محلوں سے باہر نکل کر عوام کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی وزیر خارجہ ن لیگ بلاول زرداری کو اپنے صوبے سندھ کے دارالحکومت کراچی کو مشکل گھڑی سے نکالنے کے لیے سڑکوں پر موجود ہونا چاہیے، عوامی لیڈر اپنے عوام کے ساتھ مشکل وقت میں ان کی جھوپڑیوں میں موجود ہوتا ہے کراچی شہر محرومیوں کا شکار ہے اور چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکار رہا ہے۔
اجنبی شہر کے اجنبی راستے، میرے مسائل پر سیاست کرتے رہے۔ میں ہر ایک کو آزماتا رہا، ہر ایک مجھ پر سیاست چمکاتا رہا۔