تحریک طالبانِ پاکستان سے مذاکرات

868

تحریکِ طالبانِ پاکستان کا مُخَفَّفْ ٹی ٹی پی ہے، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا مسئلہ پاکستان میں ہمیشہ مختلَف فیہ رہا ہے، لبرلز کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ جس جماعت، تنظیم یا گروہ کی نسبت درست یا غلط اسلام کی طرف ہو، اُسے کچل کر فنا کردیا جائے، لیکن یہ ایسا خواب ہے جس کی تعبیر پانا عملاً دشوار ہے، بعض حضرات مسلکی بنیاد پر اس کے مخالف ہیں اور اُن کا موقف قابلِ فہم ہے۔ جب سوات مالا کنڈ کے باغی عناصر کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت میں معاہدہ کیا گیا تو اُس کے مخالفین بھی موجود تھے، اگرچہ یہ ناکام رہا۔ ہماری نظر میں اُس کی ساخت میں بنیادی خرابی یہ تھی کہ یہ طے ہی نہیں کیا گیا تھا کہ کن اصولوں پر مذاکرات ہوں گے۔ بس حکومت نے مصیبت کو ٹالنے کی ایک تدبیر اختیار کی، جو ناکام رہی اور پھر وہ آپریشن ’’راہِ راست‘‘ پر منتج ہوئی جو یقینا ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت کے ابتدائی دور میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا، مگر وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا، پھر مذاکرات کی ناکامی کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان میں بالترتیب آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ اور آپریشن ’’ردُّ الفساد‘‘ کیے گئے، اُن مذاکرات کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ حکومتِ وقت کو پیچھے دھکیل کر ڈرائیونگ سیٹ پر مولانا سمیع الحق کے ترجمان مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر ابراہیم آگئے اور وہ ٹی ٹی پی قیادت کو دبائو ڈال کر راہِ راست پر لانے کے بجائے حکومت کو مطعون اور ملامت کرتے رہے اور آخرِ کارآرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کا آغاز کردیا، واضح رہے کہ ’’عضب‘‘ سیدالمرسلینؐ کی تلوار کا نام تھا، عضب کے معنی ’’کاٹ‘‘ کے ہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک لبرل جماعت ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسلام کے اعتبار سے سب سے اہم کام یعنی دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی دفعات اور ارتدادِ قادیانیت کی دوسری آئینی ترمیم اُسی کے دور میں ہوئی، کسی اور سیاسی جماعت کے کھاتے میں مذہبی اعتبار سے ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے، بلکہ اس کا پاسنگ بھی نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کا کریڈٹ لیتے ہوئے وہ جھینپ جاتے ہیں، کیونکہ اُن کے لبرلز کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ اقدامات حالات کے جبر کے تحت کیے تھے، وہ قلبی اور ذہنی طور پر اِن سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ سو پیپلز پارٹی اپنی نظریاتی ساخت کے اعتبار سے ایسے مذاکرات کی حامی نہیں رہی، لیکن بادلِ ناخواستہ اُسے بھی اس تجربے سے گزرنا پڑا، پیپلز پارٹی میں نظریاتی لوگ کم رہ گئے ہیں، بلاول زرداری، رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر یاشاید کچھ اور لوگ ہوں گے، اعتزاز احسن بظاہر تو پیپلز پارٹی میں ہیں، لیکن اُن کا دل عمران خان کی جانب مائل ہے، اس لیے آئے دن اُن کے ایسے تبصرے سننے کو ملتے ہیںجو آئین وقانون کی ضد نظر آتے ہیں، عربی کا مقولہ ہے: ’’حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ‘‘، یعنی کسی چیز کی محبت کا غلبہ تمہیں اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے، اُن کے بھائی بھی پی ٹی آئی میں تھے، اسی طرح اے این پی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی لبرل ہیں، سب سے زیادہ لبرل ہمارے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کی کمین گاہوں میں براجمان ہیں۔
پی ٹی آئی کی نظریاتی سَمت واضح نہیں ہے، اس میں فواد چودھری اور شیریں مزاری جیسے الٹرا لبرل بھی ہیں، اگرچہ ایسے لوگ ابن الوقت ہوتے ہیں اور اپنے نظریات کو تَج کر ’’یس منسٹر‘‘ اور ’’ہزماسٹر وائس‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، خان صاحب تضادات کا مجموعہ ہیں، وہ جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں اُن کی امریکا نواز پالیسی کے ہمنوا رہے، بعد میں آپریشن کے مخالف رہے اور مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنے کی بات کرتے رہے، لیکن اپنے دور ِ حکومت میں کوئی ایسا کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد انہیں نہ صرف اپنا علامتی دھرنا اٹھانا پڑا، بلکہ بادلِ ناخواستہ آپریشن ضربِ عضب کی حمایت بھی کرنی پڑی۔
اب پہلی بار یہ مرحلہ آیا کہ ہماری سیکورٹی اداروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں حکومتِ وقت اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا ہے، منگل کو منعقد ہونے والے اجلاس کے اعلامیے میں پہلی بار کہا گیا ہے کہ جو بھی معاہدہ ہوگا، وہ حکومت اور پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوگا اور اب تک کی پیش رفت پر پارلیمانی نمائندوں اور حکومت کو بریفنگ بھی دی گئی ہے، بریفنگ کا مفہوم ہے: ’’کسی مسئلے میں پیش رفت یا کسی معاملے کی بابت اطلاعات ومعلومات کا خلاصہ‘‘۔
جذبات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بامعنیٰ اور نتیجہ خیز مذاکرات ہی ان مسائل کا حل ہوتے ہیں، امریکا ویتنام کی جنگ میں پھنس گیا تھا اور کوئی نتیجہ اُس کے حق میں برآمد نہیں ہورہا تھا، پھر جب امریکا اور یورپ میں اس بے مقصد اور خون آشام جنگ کے خلاف لہر اٹھی تو آخرِکار امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑا، یہ مذاکرات پیرس میں منعقد ہوئے، امریکا چونکہ ہوچی من کی قیادت میں اُن کی گوریلا پارٹی ’’ویت کانگ‘‘ کو اپنا حریف ماننے کے لیے تیار نہیں تھا، اس لیے مذاکرات کی میز کے بارے میں بحث ہوتی رہی اور آخرِ کار مستطیل میز کے بجائے گول میزرکھنی پڑی، پھر اُس وقت کے صدر نِکسن نے امریکا کو اس ہزیمت سے نکالا۔
اسی طرح تقریباً 20سال کی مسلسل جنگ اور کم وبیش تین کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکا نے اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی افغان حکومت کو ایک طرف رکھا، براہِ راست طالبان سے مذاکرات کیے اور آخرِ کار انتہائی ذلّت آمیز انداز میں امریکا کو ’’بہ صد سامانِ رسوائی‘‘ افغانستان سے نکلنا پڑا، سید عثمان شاہ مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ نے کہا تھا:
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
مفہومی ترجمہ: ’’اے محبوب! آئو! تماشا کرو: میں جانبازوں کے ہجوم میں اپنی رسوائی کے سو سامان لیے سرِ بازار رقص کر رہا ہوں‘‘۔ بلاشبہ ہماری مسلّح افواج انتہائی پیشہ ور، بہادر اور منظّم ہیں اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ وہ جنگ نہیں ہے جو مورچہ زن ہوکر سامنے موجود دشمن کے مقابل لڑی جاتی ہے، گوریلا جنگ کا دشمن ’’بے چہرہ ‘‘ ہوتا ہے، اس میں ڈرائیونگ سیٹ پر دہشت گرد ہوتا ہے، وہ اپنی ترجیح اور اپنی مرضی سے باقاعدہ پیش بندی کرکے اپنے ہدف کا تعین کرتا ہے، لہٰذا سیکورٹی کے اداروں کو ہمیشہ ریڈ الرٹ اور ہائی الرٹ رہنا پڑتا ہے اور ذرا سی چوک سے بہت بڑا نقصان بھی ہوجاتا ہے، نیز وہ اپنی جنگ کو اپنے من پسند مقامات تک پھیلاکر سلامتی کے اداروں کے اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الغرض کسی کی نظر میں مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں، یہ ناگزیر ہیں اور بروقت فیصلہ ہی مفید ہوتا ہے،کسی دانا نے کہا ہے:
ہرچہ دانا کند، کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار
ترجمہ: ’’جو فیصلہ یا اقدام دانا کرتا ہے، نادان بھی بالآخروہی کرتا ہے، لیکن کافی خرابی ہونے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے‘‘۔
پس ہماری نظر میں ضروری امر یہ ہے کہ فیصلہ کُن مذاکرات کے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے بنیادی اصول طے کرلیے جائیں، مثلاً: درپیش صورتِ حال میں یہ طے ہو کہ مذاکرات پاکستان کے آئین کے دائرے کے اندر ہوں گے اور ہر فریق اپنے موقف اور مطالبات میں اس کا پابند ہوگا، نیز ملکی سرحدوں کے اندر حکومت کی عملداری کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ٹی ٹی پی ہو یا کوئی اور، اگر وہ پاکستان میں سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ بھی اس کا حق رکھتے ہیں۔ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ افغان مذاکرات کے بڑے ماہر ہیں، نہ وہ عُجلت میں ہوتے ہیں اورنہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ دبائو میں ہیں، اس لیے پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کو چوکنا، متحمل اور بلند حوصلہ رہ کر بات کرنی ہوگی۔
نیز یہ کہ مذاکرات میں داخل ہونے سے پہلے قومی سلامتی کے ادارے اور سیاسی قیادت یہ طے کرلیں کہ فریقِ مخالف کو گنجائش دینے کے لیے ہمارے پاس اسپیس کیا ہے تاکہ بعد میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے کی نوبت نہ آئے۔ ہماری سلامتی کے اداروں کو بھی تجربات سے سیکھنا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ طبقات جنہیں ہم ایک وقت میں اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ہمارا اثاثہ بن جاتے ہیں، لیکن پھر آنے والے وقت میں وہی ہمارے لیے ایک بوجھ بن جاتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کو بے وفائیوں کے طعنے دیتے ہیں۔
ہماری دینی درسیات میں جو علمِ مناظرہ ہمیں سکھایا جاتا ہے، اُس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مناظرے /مباحثے اور مکالمے میں شریک فریق یہ پہلے طے کرلیں کہ ہمارے درمیان متفق علیہ (Agreed upon) اور مختلَف فیہ امور (Points of Difference) کیا ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں اور ڈپلومیسی کے اداروں میں بھی مکالمے (Dialogue) کی تربیت دی جاتی ہے، وائٹ زون، گرے زون اور ریڈ زون کا تعیّن کیا جاتا ہے، اس حوالے سے نارویجن مصالحت کاروں کو ہم نے بڑا متحمل دیکھا ہے، لیکن امریکی تحریکِ طالبان پر سیاسی مکالمے میں اپنی برتری ثابت نہیں کرسکے۔ سو ہمیں بھی اس پیچیدہ ذہنی مشق سے گزرنا ہوگا، اس لیے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں سلامتی کے اداروں کے ساتھ سفارتی ماہرین اور پشتون روایات کے مطابق جرگے کی مہارت رکھنے والوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے بعد پاکستان کے اندر جو دوسرے منحرف اور بغاوت پر آمادہ طبقات ہیں، جیسے: بلوچ لبریشن آرمی وغیرہ، انہیں بھی مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے تو یہ نہایت مفید بات ہوگی۔ ایسے مواقع پر لبرلز بجا طور پر اس کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں پاکستان نے بہت نقصانات اٹھائے ہیں، لیکن اس کے لیے فتح مکہ کے جذبے کو سامنے رکھ کرماضی کی نفرتوں اور انتقامی جذبات کو اعلیٰ تر مقصد کے لیے ترک کرنا ہوگا۔ اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے اکابر سیاستدانوں کو فریق بننے کے بجائے مصالحت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے، یہ ملک ہم سب کا ہے، ہم سب کو یہاں مل کر رہنا ہے، سب کا جینا مرنا یہیں ہے۔