مالی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہے

697

بعض اوقات قربانی کے دنوں میں کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے، اس سال مہنگائی کا طوفان ہے، ایسی صورتِ حال میں بعض لبرل حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: ’’غریبوں پر مہنگائی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، لوگوں کو گزر اوقات میں مشکل پیش آرہی ہے، لہٰذا قربانی کو موقوف کرکے یہ رقم انتہائی ضرورت مند لوگوں پر خرچ کی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہوسکے‘‘، وہ یہ بھی کہتے ہیں: ’’علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم غریبوں پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘، بظاہر اس رائے میں بڑی اپیل ہے۔
پس اس سلسلے میں عرض ہے: نہ مالی صدقہ قربانی کا بدل ہے اور نہ دین کے فرائض وواجبات کو ساقط کرنے کا کسی کو اختیار ہے۔ وہ عبادات جو شریعت میں مقرر اور مشروع ہیں، وہ بجائے خود مقصود ہیں اور ان کو شارع کے حکم کے مطابق بجا لانا ضروری ہے۔ قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد وعورت پر واجب ہے۔ قربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے، (الکوثر: 2)‘‘، لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہوسکتا۔ قربانی کو عربی میں’’اُضْحِیَہ‘‘ کہتے ہیں، یہ گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت اور روح ایامِ قربانی میں عبادت اور اللہ کی قربت کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق حلال جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن بنی آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور یہ (قربانی کا جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں (یعنی پورے وجود) کے ساتھ آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون یقینا زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پالیتا ہے، سو تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘، (سُنن ترمذی) اسی کو حدیث میں ’’اِِھْرَاقُ الدَّم‘‘ یا’’اِرَاقۃُ الدّم‘‘ کہا گیا ہے۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ قربانی کی حقیقت اور اصل عبادت ’’اِھراقُ الدَّم‘‘ یا ’’اِرَاقۃُ الدَّم‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: خون بہانا، یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرنا جو خون بہانے سے ہوتا ہے‘‘۔ اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان (قربانی کے جانوروں) کا نہ گوشت پہنچتا ہے اورنہ اُن کا خون، بلکہ (قربانی کے پیچھے کارفرما) تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے‘‘، (الحج: 37) ہاں! اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن مدد کرنا بھی ہمارے دین اور ایمان کا تقاضا ہے اور پوری قوم کو اس ذمے داری سے عُہدہ برا ہونا چاہیے۔
رسول اللؐ نے (وعید کے طور پر) فرمایا: ’’جو شخص مالی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘، (ابن ماجہ) قربانی نہ کرنے پر وعید کا تقاضا ہے کہ قربانی واجب ہے، ’’جندب بن سفیانؓ بیان کرتے ہیں: میں عید الاضحیٰ کے دن رسول اللہؐ کے ساتھ تھا، جب آپؐ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے، آپؐ نے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا تو فرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے، وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، (مسلم)‘‘۔
آیت و احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ جس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے قربانی کو ابراہیم ؑ کی سنّت فرمایا ہے، (ابن ماجہ) اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں سیدنا ابراہیم ؑ کا جاری کردہ طریقہ ہے اور اس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔
علامہ برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں: ’’امام احمد بن محمد قدوری نے کہا: ’’ہر آزاد، مسلمان، مقیم، مالدار پر ایّامِ قربانی (10تا 12ذوالحجہ) میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، امام ابوحنیفہ، امام محمد، امام زفر، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسفؒ کے نزدیک قربانی واجب ہے‘‘، (ہدایہ) فقہ حنفی کی ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔
علامہ علا الدین حصکفی لکھتے ہیں: ’’ہر آزاد مقیم مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے، (حنفی مذہب کی) ’’ظاہرالروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے‘‘، اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے، البتہ صدقۂ فطر واجب ہے، امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے، مگر فتویٰ ’’ظاہر الروایۃ ‘‘پر ہے اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے، ایک روایت کے مطابق اگر بلا اجازت بھی کردی تو استحساناً جائز ہے، (ردالمحتار)‘‘۔
فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے، حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے، مذکورہ شخص کا یہ کہنا بھی غلط ہے: ’’علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے شدید مہنگائی کے مارے غریب عوام پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروںکا ثواب ملے گا‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا، علماء کا بیان یہ تھا: ’’فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا، البتہ نفلی حج کے بجائے یہ رقم مفلس عوام پر خرچ کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک مشکل وقت ہے اور عمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک نفلی عبادت ہے، لیکن واجب قربانی کو نہ ترک کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے وجوب کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔ البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم غریب عوام پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری اور اعلیٰ انسانی قدر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے، اُسے زمین میں قرار ملتا ہے‘‘، (الرعد: 17)، رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’بہترین انسان وہ ہے، جس کی ذات انسانیت کے لیے زیادہ نفع رساں ہو‘‘۔ (الجامع الکبیر)
قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے۔ مویشی پالنے والے لوگ سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی ضروریات پوری کریں گے۔ قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اور کھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے، نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے، سیدنا ابراہیم واسماعیلؑ اور امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہؐ کی سنّت ِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیں اور برکات ہیں۔
ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کرنے تک نہ ناخن کاٹے اور نہ بال کٹوائے، اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، حدیثِ پاک میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو جب تک قربانی نہ کرلے، بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے‘‘۔ (سُنن ترمذی) احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے، مونچھیں پست کرانے اور بغل وزیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے، وہ چالیس روز ہے، اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رکھنا ممنوع ومکروہ ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: مونچھیں کاٹنے، ناخن ترشوانے، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں‘‘۔ (مسلم)