یہ اس ملک کی بد قسمتی رہی کہ جمہوریت کے دعویدار غریب عوام کا مسیحا ہونے کے دعویدار بھی ملک و قوم کو مسائل سے نجات نہیں دلا سکے۔ کرپشن کا خاتمہ، شفاف احتساب، مداخلت و دھاندلی سے پاک انتخابات اس قوم کی خواہش ہی رہی۔ تین ماہ پہلے ہم نئے پاکستان میں اپنے مسائل کے حل کی جنگ لڑ رہے تھے مہنگائی بے روز گاری کا رونا رو رہے تھے ایسے میں ساڑھے تین سال کی جدوجہد کرنے والی اپوزیشن کی محنت رنگ لے آئی اور پھر قطری خط کی طرز کا ایک سازشی مراسلہ سامنے لایا گیا جو منتخب حکومت کو بہا لے گیا اب یہ سازش اندرونی تھی یا بیرونی اس کا شاید فیصلہ اب تاریخ ہی کر سکے گی۔
آج ملک میں مہنگائی بے روزگاری سنگین مسئلہ بن گئے ہیں چند ماہ پہلے تو اس قوم پر ایک ناتجربے کار نااہل حکومت مسلط تھی جو نئے پاکستان، ریاست مدینہ کی طرز کا پاکستان بنانے، کرپشن کا خاتمہ، احتساب، غریب کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کا دعویٰ کرکے اقتدار پر براجمان ہوئی مگر ناکامی در ناکامی کے سوا اس ناتجربے کار اقتدار سے کوئی تبدیلی قوم کو دیکھنا نصیب نہیں ہوئی البتہ یہ ضرور دیکھا گیا کہ تمام روایتی سیاسی حلیف اس تبدیلی کے اقتدار کو رخصت کرنے کے لیے متحد ہوگئے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین تین بار اس ملک کے اقتدار پر براجمان رہنے والی ان جماعتیں نے غریب عوام کی سانسوں پر وار کیا ہے مہنگائی بے روزگاری کا دو ماہ میں جو طوفان برپا کیا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہر روز بجلی پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ایسا کسی دور میں نہیں ہوا، آج مہنگائی کا سونامی ملک و قوم کو برسوں پیچھے لے گیا ہے کپڑے بیج کر قوم کو ریلیف دینے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے تو قوم کو اس جگہ لاکھڑا کیا کہ قوم اپنے کپڑے خود فروخت کر اپنے بچوں کو پالنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
مگر جو لوگ دو ماہ پہلے مہنگائی کے خلاف مارچ کر رہے تھے آج شہباز شریف کے وزیر خارجہ بلاول زرداری مہنگائی کے سونامی پر خاموش سیاست کر رہے ہیں، مریم صفدر، حمزہ شہباز جو کل تک مہنگائی پر آگ بگولہ تھے آج ان سب کے جذبات ٹھنڈے پڑگئے ہیں کیوں کہ آج یہ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں عوام کا درد ان سے میلوں دور ہوگیا ہے حقیقت پر نظر ڈالیں تو آج یہ سب اپنی سیاست اپنے اثاثوں اور اپنی کرپشن بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستان کا آئین و قانون کیوں خاموش ہے جن لوگوں پر اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات ہوں وہ کس آئین کس قانون کے تحت ملک کا نظام چلانے کے اہل ہوسکتے ہیں یہ بات آج ہر با شعور فرد ملک کے اداروں، اعلیٰ عدلیہ سے پوچھ رہا ہے کہ اس ملک کا آئین و قانون ایک ملزم کو ملک کے اقتدار پر کیسے براجمان ہونے کی اجازت دیتا ہے کس قانون کے تحت عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ شخص کو ضمانت دی جاسکتی ہے کیوں کہ ایک معمول مجرم کو کسی صورت ضمانت نہیں ملتی تو پھر کیوں ملک کی عدالت سے مجرم قرار پانے والوں کو ضمانتیں دی گئی ہیں اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان ضمانتوں میں ہر پیشی پر توسیع کر دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کا قانون عدالتی نظام ہر دور میں کمزور ہوتا چلایا گیا عوام کا انصاف سے اعتبار ختم ہوتا گیا یہ تلخ حقائق ہیں کہ ہماری جمہوریت مشکوک، ہمارے ادارے مشکوک، ہمارا عدالتی نظام مشکوک، جس نے نہ کبھی اپنے چہرے پر لگے داغ ختم کرنے کی جسارت کی اور نہ ہی ان لوگوں کو سزائیں دیں جنہوں نے ان اداروں کی ساکھ کو مجروح کرنے کی سازش کی۔
آج ملک کو سنگین بحران درپیش ہے خان صاحب اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے آئے دن سڑکوں کا رخ کر رہے ہیں جس سے شاید جلد ان کو کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا البتہ موجودہ حکومت کی ناکامیوں سے اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ اتحادی جماعتوں کا اقتدار اس سال ہی انتخابات کی جانب گامزن ہوجائے گا۔ اس بات کا اندیشہ بھی موجود ہے کہ شہباز شریف اسمبلی میں اکثریت کھو دیں گے، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری جو چاہتے تھے وہ ہونے جارہا ہے پنجاب میں ن لیگ کی ساکھ کمزور کرنے اور ن لیگ کو ہارے ہوئے گھوڑے پر سوار کرنے کی آصف زرداری کی سیاست کامیاب ہوئی ہے، آج مہنگائی سمیت ملک کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا ذمے دار عوام ن لیگ کو ٹھیرا رہے ہیں جس کا مکمل فائدہ خاص کر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ہوسکتا ہے اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ جلد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی راہیں بھی جدا ہوجائیں گی یعنی مہنگائی کا سونامی معاشی ناکامی قرضوں کا بوجھ لیے ن لیگ کو جلد تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔