قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بات کرنے، ملاقات کرنے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کی امیدیں سینے میں دبائے عافیہ کی امی جان محترمہ عصمت صدیقی دار ِآخرت سدھار گئیں۔ اْن کی صحت اسی دن سے گرنا شروع ہوگئی تھی جب ان کی بیٹی کراچی ائرپورٹ سے تین بچوں کے ساتھ اسلام آباد جانے کے لیے نکلیں اور اسلام آباد نہ پہنچ سکیں۔ اُنہیں اپنی بیٹی اور اس کے تین چھوٹے بچوں احمد، مریم اور شیرخوار سلیمان کی فکر اندر اندر سے کھائے جارہی تھی۔ وہ ایک حساس دل کی مالک ادیب خاتون تھیں، اُن کے آنسو آنکھ سے گرتے اور کاغذ میں جذب ہوجاتے اور اْن کی اندرونی کیفیات لفظوں کا روپ دھار لیتیں۔ دل کا بوجھ قرطاس کے حوالے کرکے ذرا بدن ہلکا ہوجاتا تو وہ مصلیٰ بچھا لیتی تھیں۔ اْن کی ہر دعا میں عافیہ تھی۔۔۔ یااللہ! میری عافیہ اور اس کے تینوں معصوم پھولوں کو سلامت رکھنا۔۔۔ یااللہ! جلد اُنہیں ہمارے پاس پہنچانا۔۔۔ یقینا ماں کے لبوں سے ادا ہوتے یہ الفاظ جو دل کی گہرائیوں سے نکلتے تھے، عرش میں تھرتھلی مچا دیتے ہوں گے۔۔۔ مگر بے حس حکمرانوں نے کبھی اس بے بس ماں کے درد کو محسوس اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سب سے پہلے مریم ریڈلے کے ذریعے عافیہ کے بگرام جیل میں قید ہونے اور اس پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم کا پتا چلا۔ پھر عصمت صدیقی کی دعائوں اور بہن فوزیہ صدیقی سمیت خاندان کے افراد کی کوششوں سے دو بڑے بچے احمد اور مریم بھی واپس مل گئے۔ سلیمان کا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ نانی روز بروز بڑی ہوتی مریم میں اس کی ماں کا سراپا دیکھتیں تو ان کی کچھ ڈھارس بندھ جاتی۔ خالہ نے ماں کی سی شفقت دی تو نانی نے بھی حوصلہ بڑھانے میں کمی نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمد اور مریم دکھ بھرے ماضی سے باہر نکل کر نارمل زندگی شروع کرنے کے قابل ہوئے۔
عصمت صدیقی کی اپنی عزیزاز جان بیٹی سے آخری بار اُس وقت کے و زیرداخلہ عبدالرحمن ملک نے بات کرائی، جو خود بھی اللہ کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں۔ اس بات کرانے میں بھی حکومت اور امریکا کا مفاد تھا، اس کے باوجود عصمت صدیقی تمام عمر رحمن ملک کی احسان مند رہیں۔ وہ مفاد یہ تھا کہ خاندان کی طرف سے اپنے وکیل کے توسط سے یہ درخواست دائرکی گئی تھی کہ عافیہ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا لہٰذا اسے معذور قرار دیکر رہا کیا جائے۔ آقا ولی نعمت کا غلام حکمرانوں کے نام حکم آیاکہ اس تاثر کو غلط ثابت کرنا ہے۔ یہ تھی وہ غرض جس کے تحت عافیہ سے اہلِ خانہ کی بات کرائی گئی۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں، راقم کو خود فویہ بہن نے انٹرویو کے دوران بتائی تھی۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ عافیہ کے اہل خانہ کے امریکا جانے کی قانونی کارروائی پوری کی جائیں تاکہ خود وہاں جاکر عافیہ کو دیکھ اور اُن سے مل سکیں تو امید ہوچلی تھی کہ شاید امی جان کی ترستی نگاہیں بیٹی کو دیکھ سکیں گی، مگر امی کے پاس شاید وقت کم تھا، وہ حکومت اور اداروں کو بھی بارہا آزما چکی تھیں، سو اِس حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اللہ کے حضور پہنچ گئیں۔
اماں جان! من حیث القوم ہم سب شرمندہ ہیں۔ ہمارے بے حس حکمرانوں نے آپ کی لختِ جگر کی رہائی کے کئی مواقع ضائع کردیے اور ہم جو ایک قوم سے زیادہ ایک منتشر ہجوم کی شکل اختیار کرچکے ہیں حکمرانوں کو مجبور نہ کرسکے کہ عافیہ پوری قوم کی عزت ہے، اس پر قید میں جوگزر رہی ہے ہم سب اس کے مجرم ہیں لہٰذا حکمران اپنا کردار ادا کریں۔ ماں! آج آپ چلی گئیں۔ ماں! اللہ کی عدالت میں ہماری شکایت نہ کیجیے گا۔۔۔ ہم شرمندہ ہیں!