کون کہتا ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ نہیں ہے۔ اس ملک میں ہر معاملے میں ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، سپر کمپیوٹر سمیت ہر چیز کو شکست دی گئی ہے۔ یوں تو ٹیکس کے معاملے میں تمام ہی حکمران غریب ترین اور طرز رہائش امیروں سے بھی زیادہ اعلیٰ ہوتی ہے لیکن فی الوقت کے الیکٹرک کی جدید ٹیکنالوجیز کو شکست دینے کی بات سامنے آئی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 6 سے 12 گھنٹے ہوچکا ہے۔ لیکن اچھے اچھے علاقے جو کے الیکٹرک کے اصول کے مطابق بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں ان میں اوسطاً 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اگر اس کو ایک ماہ پر تقسیم کریں تو 180 گھنٹے کی صرف لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ دیکھ بھال (مینٹیننس) کے نام پر بجلی کی بندش الگ اور غیر اعلانیہ الگ ہوتی ہے گویا یہ اوسطاً 8 گھنٹے یومیہ بن جاتی ہے۔ اس اعتبار سے مہینے کے دس دن بجلی نہیں ملتی۔ لیکن بل گیٹس، مائیکروسافٹ، سپر کمپیوٹر اور حساب دان حیران ہیں۔ انگشت بہ دنداں ہیں کہ مہینے کے دس دن بجلی نہ ہونے کے باوجود ہر ماہ بجلی کا بل پہلے سے زیادہ آتا ہے۔ ایک ہی دن کا ایک ہی علاقے کا یکساں، یونٹوں کا بھی الگ الگ ریٹس سے آتا ہے۔ صارف جاتا ہے بل کی اصلاح کرانے اور اپنی اصلاح کرواکر آجاتا ہے۔ اس قدر خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ جو لکھا ہوتا ہے وہ رقم ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ عوام اسی مجبوری کی قیمت دے رہے ہیں۔ قوم کو یہ بتایا نہیں جاتا کہ کس ادارے کو کن شرائط پر بیچا گیا ہے۔ خاص طور پر عوامی خدمات کے اداروں کی نجکاری کا مطلب عوام ہی کا سودا ہوتا ہے۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے نتیجے میں کیا ہوا۔ لوگوں نے پی ٹی سی ایل کا فون استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ کیوں کہ نجکاری کرنے والے زیادہ جھنجھٹ نہیں پالتے۔ یعنی جو لوگ ایسے ادارے خریدتے ہیں وہ وزن کم رکھنا چاہتے ہیں اس لیے جتنے کم فون ہوں گے اتنا ہی اچھا انتظام چلالیں گے اور مختلف ادوار میں یہ موبائل فون پر زیادہ توجہ دیتے رہے ہیں۔
جب سے کے ای ایس سی کی نجکاری ہوئی ہے عوام کی پہنچ سے بجلی اور ادارہ دونوں دور ہوگئے ہیں۔ اب عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ 118 پر فون کریں تو حالات سے بے خبر لوگ انتہائی اخلاق کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں لیکن اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہاں اور کیوں بجلی کا بریک ڈائون ہے، لوڈشیڈنگ ہے، یا فنی خرابی ہے۔ وہ کوئی وقت بھی نہیں دے سکتا۔ بس اتنا کہتا ہے کہ ہولڈ کیجیے پھر فوراً بتاتا ہے کہ ہماری ٹیم کام کررہی ہے جیسے ہی کام مکمل ہوگا بجلی بحال کردی جائے گی۔ کب… نہیں معلوم… کہاں کام ہورہا ہے… نہیں معلوم… یہ سب لوگ کال سینٹر میں بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے کچھ نہیں جانتے، صارف بے چارا سمجھتا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا۔
کے الیکٹرک نے تازہ ڈاکا جو مارا ہے وہ عوام سے سابق مہینوں کے حساب میں بل کی وصولی ہے۔ اب تو یہ بھی سب جان گئے ہیں کہ سردیوں کے آغاز پر ہی یہ اعلان سامنے آجاتا ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اگلے تین ماہ اضافی چارجز وصول کیے جائیں گے۔ یہ بہت سادہ سی بات ہے کہ سردیوں میں بجلی کی طلب اور کھپت کم ہوجاتی ہے چھے آٹھ ہزار کا بل ادا کرنے والا ہزار بارہ سو روپے ادا کرتا ہے۔ ایسے میں کے الیکٹرک اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے یہ ہتھکنڈا اختیار کرتی ہے۔ یہی کام اس مرتبہ بھی کیا گیا ہے چوں کہ بارش اور بجلی کے شارٹ فال کی وجہ سے جولائی میں بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ زیادہ ہوگی اس لیے ادارے نے اپنی آمدنی برقرار رکھنے کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کا یہ وقت چُنا۔ یہ الگ بحث ہے جس کا کوئی سرا نہیں ملتا کہ جو بل ایک دفعہ مکمل ادا کردیا گیا اس کے بقایا جات کیوں کر دو تین ماہ بعد وصول کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے اور اس زیادتی میں سرکار کے تمام ادارے بھی کے الیکٹرک کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس پر یہ کہنا تو آسان ہے کہ ان کے مفادات ہوں گے اور بہت سے نام پہلے بھی اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن چکے ہیں جن کو کے الیکٹرک میں ملازمتیں ملی ہوئی تھیں لیکن سب کچھ چھوڑیں کسی کو کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ پھر بھی عوام کے خلاف سب کا اتحاد کیوں ہے۔ اس لیے شک تو ہوتا ہے۔
اس سارے فساد کا سبب یہ ہے کہ عوام کسی ادارے کی نجکاری کے معاہدے اور حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا سودا کتنے میں ہوگیا ہے۔ ہرچیز کی فروخت اونے پونے ہوتی ہے اور اس کی قیمت ضرور وصولی کی جاتی ہے۔ ایک ایک پلاٹ کی قیمت چند کروڑ لگا کر کوڑیوں کے مول بیچا جاتا ہے۔ ایک مثال ایلنڈر روڈ کے پلاٹ کی ہے جس کی قیمت نہایت کم لگائی گئی تھی۔ پاکستان اسٹیل کی اربوں روپے کی اراضی کو بھی کم قیمت ظاہر کرکے بیچنے کی تیاریاں ہیں۔ یہ کیسے حکمران ہیں کہ ادارے نہیں چلتے، حکومت نہیں چلتی، بسیں نہیں چلتیں، ریلوے اور فضائی کمپنی نہیں چلتی، سب کی نجکاری کو تیار ہیں، لگے ہاتھوں حکومت کی بھی نجکاری کردیں۔ یوں ہر حکومت ناکام ہی ہوتی ہے۔ ویسے اب تو حکومتوں کی نجکاری بھی ہونے لگی ہے، اصل خریدار اور فروخت کرنے والے کچھ اور لوگ ہوتے ہیں اور سامنے فرنٹ مین حکومت بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کے الیکٹرک اس کی واضح مثال ہے۔