کراچی: سندھ پر گزشتہ 14 برس سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی صوبائی دارالحکومت کو 14 برس میں ٹرانسپورٹ کا نظام دینے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ پی پی حکومت نے ہر دور اور ہر بجٹ میں شہر قائد کے لیے اورنج لائن، ریڈ لائن، یلو لائن اور بلیو لائن جیسے منصوبوں کے محض اعلانات ہی کیے، تاہم کئی برس گزر جانے کے باوجود ان میں سے کوئی منصوبہ بھی شروع نہیں ہو سکا۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے بالآخر 14 برس بعد کراچی کے 7 روٹس پر پیپلز بس سروس (ریڈلائن) کے نام سے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی، تاہم چند روز ہی میں ناقص حکمت عملی کی وجہ سے گاڑیوں کی تباہی کا عمل شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے بس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر عوام سے اپیل کی تھی کہ یہ سروس شہریوں کی اپنی ہے، لہذا اس کی حفاظت بھی شہریوں نے اپنا سمجھ کر کرنی ہے جب کہ صوبائی وزیر کے بیان کے برعکس خود سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی سے جدید بسیں تباہی کا شکار ہونا شروع ہو رہی ہیں۔
صوبائی حکومت جہاں شہریوں کو ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی سہولت دینے میں یکسر ناکام رہی، وہیں سڑکوں اور نکاسی آب کے نظام سے بھی شہر قائد کے باسی آج تک محروم ہیں، جس کے نتیجے میں عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے ڈوبنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
گزشتہ روز ہونے والی چند منٹ کی بارش کے دوران شہر کے بیشتر مقامات پر گھنٹوں پانی کھڑا رہا اور اس دوران نئی آنے والی بسیں پانی میں ڈوب گئیں، جس سے عوام کے ٹیکسوں سے خریدی گئی مہنگی بسوں کی تباہی اور حکومتی غفلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
شہریوں نے بارش کے دوران بسوں کے ڈوبنے کی وڈیوز وائرل ہونے پر حکومت سے سوال کیا ہے کہ وہ کب عوام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام اٹھائے گی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اگر خود مناسب حکمت عملی بنانے کی اہل نہیں، تو کم از کم چین سے کہہ کر کراچی کی سڑکوں اور کراچی کے بدترین نظام کے مطابق بسوں کو زیادہ اونچی بنوانا چاہیے تھا، تاکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جمع ہونے والے ٹیکس ضائع ہونے سے بچ جاتے۔
کراچی پر طویل ترین حکمرانی کرنے والی جماعت نے شہر کو کبھی ٹرانسپورٹ کی اچھی سہولت نہیں دی۔ اب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل اس عوامی ضرورت اور اہمیت کے اہم منصوبے کا افتتاح کئی سوالات جنم دے رہا ہے۔ شہریوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت عوامی اہمیت کے منصوبوں کو انتخابی مہم کے طور پر شروع کر کے شہر کے لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے بلدیاتی انتخابات کی شفافیت مشکوک ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی اخباربلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے تیسرے سب سے بڑے شہر کراچی کی خستہ حال اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ظاہر کرتی ہیں کہ میگا سٹی سیاسی طور پر یتیم ہوچکا ہے۔ رپورٹ میں کار پارٹس کمپنی مسٹر آٹو کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 2019ء میں دنیا کے 100 بڑے شہروں کے سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی ان شہروں میں شامل ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام ہے۔
واضح رہے کہ سہولیات کی کمی کے باعث اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) نے ریسرچ اینڈ اینالاسز ڈویژن کی سالانہ دی گلوبل لائیوبلیٹی انڈیکس 2021ء رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر کراچی دنیا کے 10 کم ترین قابل رہائش شہروں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2017ء کی ایک عالمی رپورٹ میں کراچی کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ شہر بھی قرار دیا جا چکا ہے۔