نوٹوں، لوٹوں اور بوٹوں کی سیاست کا خاتمہ

637

سراج الحق ایک ایماندار، محب وطن، باعمل اور سچے سیاست دان ہیں۔ انہوں نے لاہور کے ترازو کنونشن میں کیا خوب صورت بات کی۔ جماعت اسلامی کی تو سیاست ہی منفرد ہے عوامی مسائل پر واحد جماعت ہے جو میدان میں موجود رہتی ہے۔ سراج الحق صاحب نے کہا کہ ملک سے نوٹوں، لوٹوں اور بوٹوں کی سیاست ختم ہونی چاہیے۔ یہ ایک سچی بات ہے جس پر ہر ذی شعور متفق ہے۔ حال ہی میں فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہمارا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے، اب بات کرتے ہیں نوٹوں کی اور لوٹوں کی آج موجودہ حکومت میں لوٹوں کی بہار ہے۔ ماضی میں عمران خان کے ساتھ بھی لوٹوں کی ایک لمبی فوج تھی۔ 74 سال سے ملک میں لوٹا سیاست ایک شناخت بن چکی ہے اور اس لوٹا سیاست کا مقصد ایک ہی ہے۔ نوٹ کمائو اور پھر جو دوسری پارٹی اقتدار میں آئے تو لوٹا بن کر پھر اپنی دولت میں اضافہ کرو، اس وقت ہمارے ملک کی سیاست کا انحصار 3 چیزوں پر ہی چل رہا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، سیاست دان ان سے مال بنارہے ہیں اور دوسری طرف عوام ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں۔ واٹر بورڈ ہر ماہ پانی اور نکاسی ٔ آب کا بل وصول کرتا ہے مگر پانی نہیں دیتا، عدلیہ کو بھی ساری صورت حال کا پتا ہے۔ وزیراعلیٰ، گورنر سب جانتے ہیں مگر عوام کو سب مل کر پریشان کررہے ہیں۔ کراچی کے عوام پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ ایک گھر کا یومیہ پینے کے پانی کا کم از کم خرچ 100 روپے ہے جو 3 ہزار روپے ماہانہ بنتے ہیں مگر افسوس کے ووٹ لینے تو ساری سیاسی جماعتیں آجاتی ہیں مگر جو وعدے کرتے ہیں ان میں وفا نام کی چیز نظر نہیں آتی۔
اس وقت آئی ایم ایف کو بجلی ہی نظر آتی ہے جب حکومت قرضہ مانگتی ہے آئی ایم ایف کے دو ہی مطالبے سامنے آتے ہیں، پٹرول اور بجلی پر پیسے بڑھائو اور ہماری حکومت فوری طور پر حکم نامہ جاری کردیتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں سب سے مہنگی بجلی ہمارے عوام کو مل رہی ہے۔ ارے یار یہ کیا بجلی نہیں بلکہ بل مل رہے ہیں بجلی تو اس حکومت کے دور میں تبرک بن چکی ہے اس وقت پورے ملک میں بشمول کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے سوا کوئی پارٹی اس عوامی ظلم کے خلاف بولنے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو تو نوٹ نظر آتے ہیں اس لیے وہ تو کے الیکٹرک کے خلاف کچھ نہیں بولتے، لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے وہ کے الیکٹرک کے بل جو آسمان سے باتیں کرتے ہیں وہ عوام کہاں سے ادا کریں گے۔ کے الیکٹرک کی پالیسی یہ ہے کہ جن علاقوں سے ریکوری کم ہورہی ہے ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ 10 سے 12 گھنٹے آج بھی جاری ہے جب دل چاہتا ہے بجلی بند کردی جاتی ہے۔ آج کراچی میں عوام سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ الیکٹرونکس مارکیٹ کا پورا کاروبار بجلی سے چلتا ہے جب بجلی نہیں ہوگی تو کاروبار نے تو متاثر ہونا ہے تاجر کب تک برداشت کرتے آخر سڑک پر نکل آئے اور ٹائر جلائے۔ کے الیکٹرک کے افسران اور عملہ وقت کے ڈائن بن گئے ہیں، دوسری طرف ایک مرتبہ پھر حافظ نعیم الرحمن نے عوامی مطالبہ کیا ہے۔ کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کیا جائے اور فارنزک آڈٹ کرایا جائے۔ جماعت اسلامی کراچی سے کے الیکٹرک کے خلاف برسوں سے کام کررہی ہے، حکومت کو اگر کچھ واقعی کرنا ہے تو پہلے اپنی اور اپنے لوگوں کی عیاشی ختم، سرکاری دفاتر کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگائے سرکاری خرچ پر بیرون ممالک علاج معالجے پر پابندی لگائی جائے، بلدیہ کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کا پروٹوکول میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا 1 کروڑ سے اوپر کی تو اُن کی سرکاری گاڑی تھی، اس کے ساتھ مزید 10 گاڑیاں اور بھی تھیں۔ اماں پارک نارتھ کراچی میں واقعے ہے جن کا ماضی میں ایم کیو ایم پہلے بھی کئی بار افتتاح کرچکی پھر دوبارہ اس پارک کے افتتاح کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ فوٹو سیشن کرنے کے لیے ہزاروں روپے کا سرکاری پٹرول پھونک دیا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں کہ عوام کو اگر کوئی تکلیف ہوگی تو روڈوں پر نکل آئیں گے۔ یعنی آپ خود چاہتے ہیں کہ سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوجائیں۔ کیا آئی ایم ایف کی ہر بات کو مان لینا ضروری تو نہیں اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور مجھے تو اب ایسے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ آپ کے پاس ایک متبادل سی این جی کی صورت میں موجود ہے آپ اس کی قیمت کم کیوں نہیں کرتے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالات میں مہنگائی سے عوام سب سے زیادہ پریشان ہیں جس کی وجہ روز بروز پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ 4 کھرب کی سی این جی کی صنعت جو حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے تباہ ہورہی ہے اس کو دوبارہ فعال کریں۔ پاکستان دنیا کا خوش نصیب ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اوگرا کی 2019-2020ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان روزانہ کی بنیاد پر 3195 ملین کیوبک فٹ کی کھپت ہے اس کا اگر 5 فی صد سی این جی کی صنعت کو دے دیا جائے تو یہ گرتی ہوئی صنعت دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ حکومت ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو آگے بڑھائے۔
ہم نے 75 سال میں دعوے تو بہت کیے مگر عمل سے دامن خالی ہے۔ وجہ نوٹوں اور لوٹوں کی بھرمار۔ جب تک پاکستان میں ایماندار قیادت نہیں آتی ملک نوٹوں، لوٹوں اور بوٹوں کے زیر سایہ رہے گا یا پھر ہمیشہ کی طرح میرا ایک مطالبہ کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو آزما کر دیکھ لیا خدا کے واسطے ایک مرتبہ جماعت اسلامی کو کیوں نہیں آزمایا جاتا۔ آج چور بازاری میں ہم سب سے آگے نکل گئے، معاشرے کا یہ حال ہے کہ ایمان گھر گھر گلی گلی فروخت ہورہا ہے۔ ابن آدم کی زبانی حال سنو۔ 500 یونٹ کو 1500 یونٹ لکھنے والا میٹر ریڈر، خالص گوشت کے پیسے وصول کرکے ہڈیاں تولنے والا قصائی، خالص دودھ کا نعرہ لگا کر پائوڈر کی ملاوٹ کرنے والا دودھ فروش، بے گناہ کی ایف آئی آر میں 2 مزید ہیروئن کی پوڑیاں لکھنے والا انصاف پسند ایس ایچ او، گھر بیٹھ کر حاضری لگوا کر تنخواہ لینے والا ملازم، کم تول کر دوسروں کا حق کم کرکے پورا پیسہ لینے والا دکاندار، 100 روپے کی رشوت لینے والا چپڑاسی یا سپاہی، رقم لے کر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے والا وکیل، کروڑوں کے بجٹ میں غبن کرکے 10 لاکھ کی سڑک بنانے والا ایم این اے اور ایم پی اے، لاکھوں غبن کرکے 10 ہزار کا مال لگانے والا ٹھیکیدار، غلہ اُگانے کے لیے بھاری بھرکم سود پہ قرض دینے والا ظالم چودھری، زمین کے حساب کتاب و پیمائش میں کمی بیشی کرکے اپنی اولادوں کو حرام کھلانے والے پٹواری، دوائوں اور لیبارٹری ٹیسٹ پر کمیشن کے طور پر عمرہ کرنے والا ڈاکٹر، اپنے قلم کو بیچ کر پیسہ کمانے والا صحافی۔ یہ تو معاشرے کا حال ہے اور بہت سے شعبے تھے جن کا ذکر کرنا تھا مگر جگہ کی کمی کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ بس دعا کریں سب مل کر اللہ موجودہ حکومت کو نیک ہدایت دے اور جماعت اسلامی کو ایک موقع حکمرانی کا ضرور دے۔