مبارک ہو ہم پانچ لکھی ہیں

507

نگو اور چھیمو ایک ہی بھٹے پر کام کرنے والی دو خواتین ہیں۔ وہ یہاں کی پرانی ملازمائیں ہیں۔ مٹی گوندھنے اور اینٹیں تھاپنے میں ماہر، تیزی اور پھرتی میں اس سے بھی بڑھ کر، باتیں کرنے اور لڑنے جھگڑنے میں اس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ۔ ایک دن کسی بات پر دونوں کے درمیان ایسی بحث شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے سخت جھگڑے تک جا پہنچی۔ ایک دوسری کی کمزوریاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر طعنے دیے جانے لگے۔ جب نہ کوئی طعنہ اور نہ کوئی گالم گلوچ والا جملہ بچا تو اپنی اپنی بڑائی گنوانے لگیں۔ وہاں لوگوں کا میلہ لگ چکا تھا۔ بھٹے پر کام کرنے والے سب لوگ ادھر جمع ہوگئے۔ کچھ تماشا دیکھنے اور کچھ بچ بچاؤ کروانے کے لیے۔ ان میں بھٹے کا منشی بھی شامل تھا۔ اپنی بڑائی گنوانے کے چکر میں نگو کہنے لگی ’’تم مجھ سے ٹکر نہ لو، میں کوئی عام نہیں، میں دو لکھی ہوں‘‘۔ نگو کا دو لکھی ہونا سن کر چھیمو کو طیش آگیا۔ آستین اوپر چڑھائیں اور منہ سے جاگ برآمد کرتے ہوئے بولی۔ ’’چل چپ کر بڑی آئی دو لکھی‘‘ پھر بڑے فخر کے انداز سے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔ ’’میں پانچ لکھی ہوں پانچ لکھی‘‘۔ منشی جی نے اپنے پاس کھڑے نگو کے شوہر سے پوچھا۔ ’’اوئے بوٹے! یہ دو لکھی اور پانچ لکھی سے ان خواتین کی کیا مراد ہے؟‘‘ بوٹے نے سر کھجاتے ہوئے کسماتے سے انداز میں جواب دیا۔ ’’منشی جی! نگو کے سر پر دو لاکھ کا قرضہ ہے اور چھیمو پانچ لاکھ کی مقروض ہے۔ ان بے وقوفوں کو جب گنوانے کے لیے اپنی کوئی خوبی نہ ملی تو قرضے ہی کو اپنی صفت کے طور پر گِن وا دیا۔
آج ہمارے حکمرانوں کا حال بھی نگو اور چھیمو سے مختلف نہیں۔ انہیں اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں کہ ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود، آئی ایم ایف سے قرض کی بھیک مانگنے چلے جاتے ہیں۔ قرض تو بذات خود ایک بری بلا ہے۔ ایک قرض اور اوپر سے سود یعنی دو گھناؤنے افعال اکٹھے کر لیے جاتے ہیں۔ سود تو اتنا بڑا جرم ہے جس کی ایک مسلمان فرد کی زندگی میں کوئی گنجائش نہیں تو ایک مسلم ریاست کے لیے اس قبیح فعل کی کیا تک بنتی ہے۔ مزید یہ کہ قرض اور سود کی گندگی کے بدلے میں ہمارے حکمران ہمیں اس ادارے کی غلامی میں بھی جھونک دیتے ہیں۔ یہ ادارہ ہماری تمام ضروریات ِ زندگی کے سامان کی قیمت پر اپنی شرائط نافذ کرتا ہے۔ پھر جب غلاموں کی طرح ساری شرائط ماننے کے بعد سود پر قرض ملتا ہے تو یہ عقل کے کھوٹے خوشیاں مناتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا معرکہ سر انجام دے دیا ہو۔ ابھی چند دن پہلے جب چین کی طرف سے پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر کا قرضہ وصول ہوا تو وزیرخزانہ نے اس پر خوب خوشی کا اظہار کیا لیکن اس خوشی میں نکمی اور پھوہڑ عورت کی طرح یہ نہ سوچا کہ اس کی ادائیگی کیسے ہوگی، سود کی مد میں کتنا زیادہ جائے گا۔ چین سے قرض ہمیں آئی ایم ایف سے بھی زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ سب کے علم میں ہے کہ چین اپنے مفادات کا پجاری ہے اگر وہ کسی کو ایک روپے کا نفع دیتا ہے تو ہزار وصول بھی کرتا ہے۔
یہاں بات ہو رہی تھی آئی ایم ایف کی۔ ان سے حالیہ قرض سیریز دیکھی جائے تو یہ سابق وزیراعظم عمران خان کا معاہدہ ابھی تک چل رہا ہے جو اس نے 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا تھا۔ جس کا پاکستان کو ابھی تک صرف تین ارب ڈالر ملے ہیں۔ اس معاہدے کا اختتام رواں برس ہو رہا ہے۔ اب موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس معاہدے کے باقی تین ارب ڈالر بھی انہیں جلد مل جائیں۔ یہ لوگ زمینی حقائق نہیں دیکھتے بلکہ اپنی سیاسی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے صرف اپنی حکومتی وقت گزاری کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایسے منصوبے عمل ہی میں نہیں لاتے جن سے مالی خسارے میں کمی لائی جائے، اپنے لوگوں کو کوئی آسانی دی جائے، قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی جائیں۔ بجلی، تیل کی قیمتوں میں کمی لائی جائے، بلکہ ان کی عقل کا میعار چیک کریں کہ ایک بہترین زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے درامد کر رہے ہیں جس کی قیمت فی من 4ہزار سے 45 سو روپے پڑ رہی ہے لیکن اپنے کسان کو تین ہزار دینے میں راضی نہیں۔ کاش! اپنے کسان سے تین ہزار روپے فی من کے حساب سے خرید لیتے تو یہ کسان خوشی سے شادیانے نہ بجاتے؟ ان کی تنگ دستی دور ہو جاتی اور یہ اگلے سال ملک میں دگنی گندم مہیا کر دیتے لیکن کبھی نہیں وہ کام ہی کیوں کریں جس سے ملک کا کوئی مسئلہ حل ہو۔ یہ لوگ تو صرف مسائل پیدا کرنے، ملک کو کھانے چاٹنے اور ملک کو مزید غلامی کے چنگل میں پھنسانے آتے ہیں۔
ہم پچھلے 75 سال سے آئی ایم ایف کے سودی قرضوں میں کیوں جھکڑے ہوئے ہیں؟ جبکہ کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف سے اپنی جان چھڑوائی اور دوبارہ کبھی رابطہ نہ کیا۔ بھارت نے 1991ء میں آئی ایم ایف سے رابطہ ختم کیا۔ انہوں نے اپنا سونا بیچ کر قرض کی رقم واپس کی اور دوبارہ کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔ بھارت کی تو حکومت نے سونا بیچ کر قرض کی ادائیگی کی تھی لیکن الحمدللہ پاکستان کی عوام بھی وطن کے لیے قربانی کے جذبے سے معمور ہیں۔ کوئی صالح حکمران آکر اشارہ تو کرے لوگ اپنے گھروں میں رکھا سونا پیش کر دیں گے مگر ان آزمائے گئے حکمرانوں کے کہنے پر نہیں۔ چند سال پہلے ایک جج کی اپیل پر ڈیم بنانے کے لیے فنڈ اکٹھے کیے گئے تو ملک کے تقریباً ہر گھر کے بچوں نے اپنی جمع شدہ عیدیاں اور جیب خرچ کی رقوم بھی پیش کر دیں کہ ملک بجلی میں خود کفیل ہو جائے گا۔ بچوں کے علاوہ بڑوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ افسوس! ابھی تک یہ خواب پورا نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی نے نوٹس لیا کہ یہ اتنا اکٹھا شدہ پیسہ گیا کہاں؟ اس لیے میں نے صالح حکمران کی شرط لگائی ہے۔ اسی طرح ویتنام اور جنوبی کوریا نے بھی اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف کو ایسا خدا حافظ کہا کہ دوبارہ کبھی اسے نہیں پکارا۔ کاش! اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ملکی نظام چلانے کے لیے صالح اور عقل مند لوگ عطا فرما دے جو ہماری ملکی معیشت کو مستحکم کر کے ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات دلادے۔ ورنہ یہاں حال تو یہ ہے کہ سودی قرضے حاصل کرنے اور غیروں کی اپنے اوپر شرائط لاگو کروانے کے بعد بے وقوف نگو اور چھیمو کی طرح قرض لینے کو اپنی خوبی سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے اور وصول کرتے ہیں کہ مبارک ہو ہم پانچ لکھی ہیں۔