کراچی اور اس میں بسنے والی تین کروڑ سے زائد آبادی کی بد قسمتی رہی کہ اس شہر کو کوئی ایسی حکومت اور ایسا نظام میسر نہیں آسکا جو اس شہر کے عوام کو روزگار، تعلیم، علاج، انصاف اور سب سے بڑھ کر زندگیوں کا تحفظ مہیا کر سکے۔ ۱۴ سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ میں براجمان ہے مگر اس وقت یہ شہر مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے اس شہر کے عوام نے ہمیشہ مشکل حالات میں مہنگائی بے روزگاری کے مسائل کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں مگر کیا اس شہر کے عوام کی زندگیوں کی کوئی فکر وفاقی و صوبائی حکومت کو ہے؟ یہ شہر برسوں سے جہاں دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصر کی درندگی کا شکار رہا وہاں پولیس کی مسلسل ناکامیوں کا بھی یہ شہر خمیازہ بھگت رہا ہے۔ جعلی پولیس مقابلے منشیات فروشوں کی مکمل سہولت کاری، بھتا خوری سمیت پولیس کی کئی کالی بھڑیں جن میں پولیس افسران کی ایک بڑی تعداد بھی بھرپور انداز سے موجود ہے اور بد قسمتی کا عالم تو یہ کہ ان کالی بھیڑوں کو سیاسی سر پرستی بھی مکمل منظم انداز سے دی جارہی ہے جس کی مثال مشہور زمانہ انکاونٹر اسپیشلسٹ رائو انوار جیسے کئی افسران جو وردی اور سیاسی پست پناہی کی بدولت اس شہر کے امن اور اس شہر میں جرائم پیشہ افراد کی سر پرستی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ 2016 کراچی آپریشن کے بعد یہ اُمید کی جارہی تھی کہ اب اس شہر کے امن اور اس شہر میں بسنے والے افراد کو یقینا کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا مگر چند ماہ کی خاموشی کے بعد ہی یہ شہر ایک بار پھر جرائم پیشہ عناصر کی مکمل گرفت میں نظر آرہا ہے ہر روز اس شہر میں سر عام ڈکیتی کی وردات معمول بن گیا ہے دن دھاڑے سر عام گھروں کے باہر بھرے ہجوم کی موجودگی میں جرائم پیشہ عناصر شہریوں کے ساتھ لوٹ مار کر رہے ہیں معمولی تلخ کلامی پر قتل ہورہا ہے اور انتظامیہ اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
بلاول زرداری اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اقتدار کے نشے میں اتنی مست ہے کہ ان کو سندھ حکومت کی کار کرد گی، پولیس کی نااہلی، بڑھتی لوڈشیڈنگ، ہوش روبا مہنگائی، مسلسل بڑھتی بے روزگاری کی کوئی پروا نہیں ہے بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح اپنے سیاسی مخالف کی سیاست کودفن کر دیا جائے اور یہ دونوں جماعتیں ہمیشہ کے لیے اقتدار پر براجمان رہتے ہوئے غریب عوام کا خون چوستی رہیں۔ کراچی شہر جو پاکستان کا معاشی حب ہے اس شہر کی محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے جس کو کبھی کسی نے سنجیدہ نہیں لیا ہمیشہ اس شہر کو مفادات کی بھینٹ چڑایا گیا اس شہر کی عوام کے ووٹ کی بنیاد پر وفاق میں حکومتیں بنائی گئی اور ان حکومتوں میں اقتدار کے حصے لیے گئے مگر اس شہر کی محرومیوں پر کبھی بھی کسی نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا خمیازہ یہ شہر اور اس میں بسنے والے لوگ آج بھی بے روزگاری مہنگائی پانی بجلی کی مسلسل بندش کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
کراچی شہر ایک بار پھر مسائل کی بھٹی میں جل رہا ہے اس شہر میں بسنے والے لوگ ایک بار پھر اپنی زندگیوں کے تحفظ اپنے بنیادی مسائل کی فکر میں حکومت اور انتظامیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ سندھ حکومت اس شہر اور میں بسنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے اس شہر کو دہشت گردوں جرائم پیشہ عناصر منشیات فروشوں کی آماج گاہ بنا دیا گیا ہے۔ سندھ پولیس کو حکمرانوں نے اپنی غلامی پر مامور رکھا ہے اس وقت کراچی کے مختلف علاقوں میں منشیات کھل عام فروخت کیا جارہا ہے کراچی کے علاقے پنجاب کالونی چانڈیو ولیج میں پولیس اور عوامی نمائندوں کی سر پرستی میں گٹکا چرس اور آئس کے نشے فروخت کیے جارہے ہیں مسلسل سوشل میڈیا پر علاقے کی سماجی تنظیمیں آواز اُٹھائی رہی ہیں مگر پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
پیپلزپارٹی اس شہر کے مسائل کو حل کرنے میں ہر طرح سے ناکام رہی ہے اندازہ لگائیے کہ شہر کراچی کو اس وقت بد ترین لوڈ شیڈنگ پانی فراہمی اور ہوش روبا مہنگائی کا سامنا ہے عوام کا جینا مشکل بنا دیا گیا ہے مگر اس ملک کے عوام کی جماعت کا دعویٰ کرنے والی پیپلزپارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول زرداری بیرون ملک دوروں اور اسلام آباد کے پُر سکون ماحول سے باہر آنے کے موڈ میں نہیں البتہ اگر ان کی کرپشن ان کی ناکامی ان کی دھاندلی پر ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم ناراضی کا اظہار کرے تو موصوف کو پیپلزپارٹی کی ساکھ اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قربانیوں کا درد ستانے لگتا ہے اور پھر وہ جذباتی ہو کر مخالفین اور اداروں کو رگڑا لگانے میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔
اس وقت پورا ملک مہنگائی، بے روز گاری، پانی، بجلی کے مسائل میں مبتلا ہے اور ایسے میں ن لیگ پیپلزپارٹی سمیت تمام اتحادی جماعتوں میں مفادات کی لڑائی شروع ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم سمیت مختلف اتحادی اپنے تحفظات کا اظہار کر ر ہے ہیں، اب شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، بلاول زرداری، مولانا فضل الرحمن سمیت کسی بھی اتحادی کو عوامی مسائل کا درد نہیں ستا رہا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ۲۲ کروڑ سے زائد عوام اپنے مسائل کا حل اور اپنی قیمتی زندگیوں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں آنے والی نسل کو ذاتی مفادات کی سیاست ملک کو کرپشن فری پاکستان اور ایک بہتر موثر نظام زندگی دینا چاہتے ہیں تو ایک بار اپنے ووٹ کا درست استعمال کرتے ہوئے اس ملک کو دیندار، عوام کا درد رکھنے والی قیادت کے سپرد کر کے دیکھے، ہم ۷۴ برسوں سے قیادت کے فقدان میں مبتلا ہیں جس کے قصور وار ہم خود ہیں کیوں کہ ہم اپنے ووٹ کو زبان رنگ نسل فرقوں میں تولہ کرتے ہیں صرف ایک بار ہم محب وطن پاکستانی بن کر اپنے قیمتی ووٹ کا درست استعمال کریں تو کوئی دو رائے نہیں کہ اس ملک کے اقتدار پر ایک بہتر قیادت براجمان ہوسکتی ہے۔