اسپورٹس ڈپارٹمنٹ کے خاتمے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے ،نیشنل اسپورٹس کانفرنس کا اعلامیہ

392

“کراچی :حکومت سابق وزیر اعظم پاکستان کے ڈپارٹمنٹل اسپورٹس کے خاتمے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر محکمہ جاتی ٹیمیں بحال کرے ،نئی اسپورٹس پالیسی میں کھلاڑیوں کے روزگار کا تحفظ یقینی بنایا جائے ،کرکٹ کا سابقہ ڈومیسٹک سسٹم بحال کرنے کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی اور صوبائی محکموں میں اسپورٹس ونگ کا قیام یقینی بنایا جائے”

۔نیشنل اسپورٹس کانفرنس میں سابق ٹیسٹ کرکٹرز، سابق اولمپئن ،اسپورٹس آرگنائزرز اور اسپورٹس جرنلزم سے وابستہ صحافیو ں نے خطاب کرتے ہوئے کھلاڑیوں کے معاشی مسائل اور پاکستان میں اسپورٹس کے زوال کے اسباب اجاگر کئے ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل بینک شعبہ اسپورٹس کے سابق سربراہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم نے کہا کہ

بد قسمتی سے انگلینڈ اور آسٹریلیا کا کرکٹ سسٹم ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے جس کے باعث مسائل پیدا ہوئے، پاکستان میں شہریوں کی ویلفیئر، میڈیکل اور تعلیم یورپ کی طرح ہماری حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے یہاں پر ان کا سسٹم نہیں چل سکتا، سابق وزیراعظم عمران خان کو اگر ادارے بند کرنا مقصود تھا اور مسئلہ کرکٹ کا تھا

تو صرف کرکٹ کو وقتی طور پر بند کر دیتے باقی کھیلوں کی ٹیمیں بند کر کے کھلاڑیوں کا معاشی قتل عام کیوں کیا گیا، ڈیپارٹمنٹل اسپورٹس کی بندش پر ہم نے ہر سطح پر مخالفت کی تھی ۔ پی سی بی اپنے مفادات کے لئے محکموں کو ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ ڈپارٹمنٹ بہر حال پی سی بی سے اچھا کام کرتے آرہے تھے ،کھلاڑیوں کا مستقبل بچانے کے لئے کوئی لائحہ عمل جلد بنانا ہوگا ،قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اولمپئن اصلاح الدین نے کہا کہ ہر نوجوان کھلاڑی ڈپارٹمنٹ میں آنے کے بعد اپنے کھیل میں نکھار پیدا کرتا تھا

جس کے باعث وہ پاکستان کے لئے کھیل جاتا تھا ،محکمے کھلاڑیوں کے لئے آکسیجن کا کام کرتے ہیں لیکن اب آکسیجن کی بندش سے کھلاڑیوں کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں ایسی صورت میں لڑکا ہاکی کی جانب کیوں آئے گا۔ڈپارٹمنٹ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم نے آواز بلند کی تھی، محکموں کی بحالی ک بغیر ہاکی سمیت کسی بھی کھیل میں پروفیشنل ازم نہیں آسکتا ،پاکستان بلیئرڈ اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے چیئر مین عالم گیر شیخ کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو معاشی مسائل سے نکالنے اور اسپورٹس ڈپارٹمنٹ کی بحالی کے لئے باتوں کے بجائے عملی کام کیا جائے،

اب تو یہ صورتحال ہوگئی ہے کہ نیشنل بینک دو بار کے والڈ اسنوکر چیمپئن اور ولڈ نمبر تھری محمد آصف کو چائے پلانے کی نوکری کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے، نیشنل بینک کے کھلاڑی گزشتہ ایک سال سے تنخواہوں سے محروم پیں، ان کا کہنا تھا کہ وفد بنا کر وزیر اعظم پاکستان سے ملا جائےانہیں پاکستان اسپورٹس کی موجودہ صورت حال پر تفصیل سے بریف کرنے، ڈیپارٹمنٹل اسپورٹس کو بحال کر نے اور کھلاڑیوں کی ملازمت اور کھیلوں کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے کی اپیل کی جائے ۔ پی سی بی گورننگ باڈی کے سابق رکن پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کہا کہ ڈپارٹمنس کی بندش سے کھلاڑیوں کا اسپورٹس کی جانب رجحان ختم ہو گیا

اب انہیں اسپورٹس میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا ،فرسٹ کلاس کرکٹر بننا بھی اب مشکل تر بنا دیا گیا ہے ،محکموں میں کھیل کے لیجنڈ ہوتے تھے تو محکموں کو بزنس بھی ملتا تھا لیکن ان کے بند ہونے کے بعد یہی کھلاڑی ڈرائیور بن کر روزگار تلاش کر رہے ہیں جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے،معروف اسپورٹس اینکر پرسن مرزا اقبال بیگ نے کہا کہ کھیلوں سے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کئے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے ،

ڈپارٹمنٹ کھلاڑیوں کو تراش کر ہیرا بناتے تھے اورکھلاڑیوں کی سرپرستی کرتے تھے اب ایسا نہیں ہو رہا جو پاکستان اسپورٹس کے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑی وجہ ہے،سینئر اسپورٹس اینکر پرسن اور جرنلسٹ وحید خان کا کہنا تھا کہ آج کل کے معاشی حالات کے سبب فوری طور پر ڈپارٹمنٹ میں شعبہ اسپورٹس کی بحالی ممکن نہیں

دوسری جانب کھیلوں میں لیڈر شپ کا بھی فقدان ہے ،حکومت فوری طور پر ڈیپارٹمنٹل اسپورٹس بحال نہیں کرسکتی تو فنڈز کے حصول کے لئے ایسی پالیسی بنائے جس کے ثمرات کھلاڑیوں تک بھی پہنچیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسپورٹس ختم نہیں ہوگا تاہم یہ مشکل وقت جلد ختم ہو جائے گا ۔ سینئر اسپورٹس جرنلسٹ خالد محمود نے کہا کہ

نئی اسپورٹس پالیسی پر اگر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہو تی ،اسپورٹس فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز میں لوگ سالوں سے بیٹھے ہوئے ہیں اور ہٹنے کا نام نہیں لیتے ،عہدے بدل بدل کر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں جب تک یہ صورت حال رہے گی پاکستان اسپورٹس میں بہتری نہیں آسکتی، سجاس کے صدر آصف خان نے کہا کہ بجٹ کا درست استعمال ہو گا

تب ہی اچھے اور باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئیں گے ،کھیلوں کے لئے مختص بجٹ بہت کم ہوتا ہے اس میں اضافہ نا گزیر ہے ،اسپورٹس پالیسی کی فائل وزیر اعظم ہاؤس میں ہے لیکن اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ۔ کھیلوں کی بہتری اور کھلاڑیوں کے مسائل کے حال ،اداروں میں اسپورٹس کی بحالی کے لئے میڈیا بھی آپ کے ساتھ ہے ،ہم سب کو ایک ساتھ کوشش کر کے حالات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان روئنگ فیڈریشن کے سابق صدر انجینئر محفو ظ الحق نے کہا کہ

کھلاڑیوں کو معاشی فکر سے آزاد کئے بغیر ان سے عمدہ کارکردگی کی امید نہیں رکھی جا سکتی ،محکموں میں آنے کے بعد کھلاڑی اپنے فن میں بہتری لاکر ملک و قوم کے لئے میڈلز جیت کر لاتے رہے ہیں تاہم اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے ۔ نیشنل فٹبال کوچ ناصر اسماعیل نے کہا کہ محکموں میں ٹیموں کے ختم کئے جانے سے پاکستان فٹبال کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔

ایسی پالیسی بنائی جائے کہ ادارہ اور کھلاڑی دونوں ساتھ ساتھ چلیں ۔ سینئر اسپورٹس جرنلسٹ راشد عزیز نے کہا کہ دوسروں کو الزام دینے سے پہلے ہمیں خود کو بھی دیکھنا ہوگا، محکموں کی بندش ایک جانب غلط اقدام ہے تو دوسری جانب ہمیں یہ دیکھنا ہوگاکھیلوں کی ترقی اور فروغ کے لئے گراس روٹ لیول پر ہم کیا کرسکتے ہیں،

کھیلوں کے زوال میں حکومت کے ساتھ ساتھ اسپورٹس فیڈریشنز اور ہم سب برابر کے ذمہ دار ہیں، بعد ازاں کانفرنس کے مقررین کو سجاس کی جانب سے سوینئر اور شیلڈز پیش کی گئیں،