مقتل سے آرہی ہے صدا اے امیرِ شہر
اظہارِ غم نہ کر، میرا قاتل تلاش کر
آج مجھے ایک قول یاد آرہا ہے، ’’میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کے بعد اْس شخص سے ڈرتا ہوں جو اللہ سے نہیں ڈرتا‘‘۔ یہ درس ہمیں شیخ سعدیؒ کے ملفوظات سے ملتا ہے۔ تاریخی واقعات کی ورق گردانی کریں تو یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ خدا سے نہ ڈرنے والوں کی فہرست میں اقتدار و طاقت کے نشے میں مست لوگ ہی صف اول میں نظر آتے ہیں۔ دولت و شہرت کے مقابلے میں طاقت کا نشہ ___ انصاف کا قتل اور ظلم و استہزاء کے بھیانک و انسانیت سوز داستانیں رقم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اقتدار کا مدہوش و بدمست ہاتھی اپنی چال میں مگن ہوتا ہے۔ اقتدار و سیاست کے نشے میں ظلم کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کبھی سدا نہیں رہتا کیونکہ ’’اصل بادشاہت‘‘ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ملک میں ظلم کی ایسی داستان لکھی جارہی ہے جسے دیکھ کر انسانیت کانپ اٹھے، لیکن جب اصل مالک رسی کھینچتا ہے تو ظالم عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظلم کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتا۔ طاقت اور اقتدار کے نشے میں مست ظالم اور مغرور حکمران دنیا کے لیے نشان عبرت بن جاتے ہیں، جس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ دنیا مکافات عمل کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ ربّ العزّت کو گردشِ ایام کو تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ ابرہہ کا انجام ہی چشم ِ تصور میں لائیں کس طرح اللہ نے ایک طاقتور، بدمست، طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور بادشاہ اور اس کی فوج کو ایک چھوٹے سے پرندے کے ذریعے عبرتناک انجام سے دوچار کیا۔ اللہ سے نہ ڈرنے والے لوگوں کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اقتدار میں رہیں، ہر لمحہ طاقت کے نشے میں مست رہیں، طاقت کے نشے کی لت پڑ جائے تو بڑی جلدی دل و دماغ پر بے حسی کا راج ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپنے آپ کو کچھ اور سمجھنے لگتا ہے۔
مسلمانانِ ہند اور ہماری موجودہ نام نہاد جماعتوں، اداروں اور تنظیموں کی کمزوریاں و نااتفاقیاں ہی باطل قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ثابت ہورہی ہیں۔ ہمارے علمائے کرام، دانشورانِ امت، رہنمائے قوم، قائدین ملت اور مفکران اسلام کو اسلامی اجتماعیت کے دائرہ کار اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنی اصل کی طرف رجوع کرکے ایک مضبوط لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، اگر اس عظیم کام کے لیے اگر ہماری موجودہ قیادت فیصلے لیتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرنا ہوگا، اور اگر وہ اس کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی تو تبدیلی ٔ قیادت کے ضمن میں بھی ہمیں تیار ہونا ہوگا۔ اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہیں۔ ہماری غفلت اور ڈر وخوف کی نفسیات نے ہمیں کس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ حلق سے آواز ہی نہیں نکلتی!! جس کے نتیجے میں باطل پرستوں اور زعفرانی ہرکاروں کو چمن ہند کو ایک متشدد مذہبی ریاست میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ ملک کی مسموم فضاؤں میں زعفرانی زہر اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ چوہتر سالہ مقتدرہ کی ظاہری ہم نوائی کے باوجود کاسہ ٔ گدائی پھیلانے کے مسلمانوں کے ہاتھ نہ کچھ آیا اور نا ہی کچھ ہاتھ آئے گا؟
صدائے احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے۔ لیکن مسلمانوں سے اس بنیادی حق کو بھی چھینا جارہا ہے۔ مسلمان جو اپنے خلاف امتیازی سلوک، ناانصافی، ظلم و اذیت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کررہا ہے، انہیں ہدف بناکر ظالمانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں، گھروں اور تجارتی مراکز کو مسمار کیا جارہا ہے۔ بلڈوزر ٹیررازم کے ذریعے ڈر و خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ دکانوں اور مکانات کی مسماری کے سلسلے میں جب عوام نے سرکاری حکام سے حکم نامے دکھانے کو کہا تو انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے کہا کہ ’’مظاہرے میں شامل افراد کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے، ان کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے، جسے دل کر رہا ہے، اسے حراست میں لیا جارہا ہے اور اپنے لیے آواز بلند کرنے والے مظاہرین سے اس طرح کا سلوک، بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہے‘‘۔
دہلی، کانپور، پریاگ راج (الہ آباد) اور سہارنپور شہروں میں انتظامیہ نے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں مکانات کو بلڈوزر کی مدد سے زمین دوز کردیا گیا۔ ظالموں کو آخر یہ حق کس نے دیا؟ ماہ رمضان میں صوبے مدھیہ پردیش کی انتظامیہ نے رام نومی کے جلوس پر مبینہ پتھراؤ کے الزام میں مسلمانوں کے درجنوں مکانات اور دکانیں ظلم و درندگی اور زیادتی کے ساتھ مسمار کردیے۔ کھرگون میں کرفیو کے باوجود مسلمانوں کی مساجد و املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ ریاست کے وزیر داخلہ نے کہا، ’’جس گھر سے پتھر آئے ہیں اس گھر ہی کو پتھروں کا ڈھیر بنا دیں گے‘‘۔ مسلمانوں کے کم از کم 45 مکانوں اور دکانوں کو مسمار کیا گیا، جن میں 16 مکانات اور 29 دکانیں شامل تھیں۔ ’’کیا ملک کے کسی قانون یا ضابطے میں اس بلڈوزر کلچر کی
گنجائش ہے؟‘‘ ماضی میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے انہدامی کارروائی کے ضمن میں انتباہ جاری کیا گیا تھا، نوٹس جاری ہونے کے بعد بھی غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے۔ اہل اقتدار کی کارروائی میں یہ بات واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ افسران و انہدامی عملہ اور پولیس یک طرفہ کارروائی کررہی ہے۔ اس تشدد میں پتھر چلاتے ہوئے جن ہندو نوجوانوں کے ویڈیو وائرل ہوئے ہیں اور اس میں یہ بھی صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس بھی مبینہ طور پر ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ ان تمام ویڈیوز کو نظر انداز کردیا ہے اور جو پتھر مسلمانوں نے چلائے ہیں، اْن مسلمانوں کے فوٹو نکال کر ان کے پوسٹرز بنا کر عوامی مقامات پر چسپاں کیا جارہا ہے۔ کچھ روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں ایک پولیس افسر اپنے اعلیٰ افسر کو بتا رہا ہے کہ احتجاجی مظاہرین بی جے پی کے ایم ایل اے کے ساتھ بموں اور ہتھیاروں کے ساتھ آئے ہیں، مگر ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی نہ ایف آئی آر؟؟ ایک بی جے پی کے منسٹر کا بیٹا تعصب کی بنیاد پر کئی لوگوں کو اپنی گاڑی سے روندتا ہے مگر اسے کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں، مگر ان واقعات کو نظر انداز کرکے محض صدائے احتجاج بلند کرنے والوں اہل ایمان پر برق گرائی جارہی ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ دنیا میں کوئی ایسا بلڈوزر ایجاد نہیں ہوا! جس نے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی مضبوط بنیادوں کو منہدم یا مسمار کیا ہو!! ان شاء اللہ! آزمائش کے یہ پرخطر ایام بھی گزر ہی جائیں گے، مگر ان ایام کو تبدیل کرنے کے لیے ہمارا کیا کردار ہو اس پر ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہوش کے ناخن لیں، اور امت کے غم میں اور اس کے مداوا کے لیے سعی و جہد کریں۔ ان شاء اللہ! اللہ کا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو۔ (اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ زورآور اور غالب ہے۔)
ہماری اس ابتلا و آزمائش کے اسباب و حل کے لیے اسلامی تعلیمات ہی سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ اگر ہمیں واقعی موجودہ حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا ہے تو ان آیات و احادیث کی روشنی میں ایک سمت سفر باندھنا ہوگا۔ روشنی و کامرانی کے منبع کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔ روشنی و ہدایت، فتح و نصرت کا سر چشمہ قرآن کریم ہی ہے۔ جسے ہم نے جزدانوں میں سجا کر رکھا ہے۔ اور رسول کریمؐ فرمائیں گے کہ: اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ (الفرقان: 30) تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے رہو۔ (سورہ آل عمران: 139) اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔ (سورہ آل عمران: 200)
اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔ (سنن ابو داؤد)
موجودہ حالات میں بحیثیت مسلمان ہمیں وہن کی بیماری کا علاج ڈھونڈنا ہوگا۔ اس وہن کی بیماری نے ہمارے اس سفینے کو ڈوبنے کے مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں بشارت، غلبہ ٔ دین، ابتلا و آزمائش کے متعلق اپنے مطالعے کو بڑھانا ہوگا۔ ان شاء اللہ! اسی میں سے ہماری راہیں ہموار ہوں گی۔