اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں چار چینیوں کی خودکش بم دھماکوں میں ہلاکت کے بعد چین پاکستان پر یہی دباؤ ڈال رہا ہے کہ اس کی افواج کو پاکستان میں اُترنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد چین نے حکومت ِ پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے چینی قرض بروقت ادا کیے جائیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں چین کر رہا ہے جب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرض دینے کی تمام حکومتی کوشش ناکام ہو چکی ہیں، پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے عائشہ پاشا کو بھی امریکا کی سیر کرادی جن کے ساتھ مفتاح اسماعیل بھی تھے لیکن اس وفد کو امریکا میں سخت ناکامی کا سامنا رہا ہے اور امریکا نے پاکستان کو مکمل طور پر مایوس کیا ہے۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں سے کہا ہے وہ پاکستان کی کسی بھی طرح سے مدد نہ کریں۔ اب پاکستان کے لیے ایک مشکل تیاری کی جارہی ہے۔ یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان آیا ہے جو اپنے قیام کے دس دنوں کے دوران جی ایس پی + کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے سلسلے میں مانیٹرنگ کر ے گا جس کی بنیاد پر پاکستان کو جی ایس پی + جاری رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ ساری صورتحال اس لیے پیدا کی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کے دفاع پر وار کیا جاسکے اور بھارت کو اس بات کا موقع فراہم کیا جا سکے وہ پاکستان پر حملہ کرسکے اس کے لیے بھارت میں میڈیا کی سطح پر بھی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ لیکن چین نے پاکستان کو اکیلا چھوڑ رکھا ہے جس کے لیے پاکستان امریکا سے الگ ہونے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
عالمی اخبارات کے مطابق چین غریب ممالک کو جن شرائط پر قرضہ دیتا ہے ان کی وجہ سے ان ممالک کو چین کا قرض لوٹانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چین اسے ان ممالک پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن چین ان الزامات سے انکار کرتا ہے اور اس کا مؤقف یہ ہے کہ کچھ مغربی طاقتیں اس بیانیے کے ذریعے چین کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ چین کہتا ہے کہ دنیا میں ’ایسا ایک ملک بھی نہیں جو چین سے قرضہ لینے کے بعد ’ڈیٹ ٹریپ‘ یا قرضے کے جال میں پھنس گیا ہو۔ لیکن اپریل سے یہی پتا چل رہا ہے کہ پاکستان پر چین فوج اُتارنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے وہ اس بات کو اچھی طر ح سمجھ چکا ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے مزید منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے چینی افواج کا پاکستان میں موجود رہنا ضروری ہے چین پہلے اپنے سرکاری اخبارات اور اس کے بعد حکومتی سطح پر پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔
چین کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ قرض دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران کم اور اوسط آمدنی والے ممالک کو دیے گئے چینی قرضوں میں تین گنا اضافہ ہوا اور 2020 کے آخر تک ان قرضوں کی کل مالیت 170 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی تاہم چین نے کئی ممالک کے ساتھ قرض دینے کے جو معاہدے کر رکھے ہیں ان کی کل مالیت اس سے شاید بہت زیادہ ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکا کی ولیم اینڈ میری یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی ترقی کی ایک تنظیم ’ایڈ ڈیٹا‘ کی تحقیق کے مطابق چین نے ترقی پزیر ممالک کو جو قرضے دیے ہیں ان میں سے نصف ایسے ہیں جو سرکاری اعداد و شمار میں دکھائی نہیں دیتے۔ قبل ازیں متعدد جسارت کے قلم کاروں نے بھی لکھا ہے کہ سی پیک کی بہت ساری باتیں چھپائی گئی ہیں۔ اکثر یہ قرضے حکومتی سطح پر نہیں دیے جاتے بلکہ چین یہ قرضے ان ممالک کی سرکاری تحویل میں چلنے والی کمپنیوں، بینکوں، مشترکہ منصوبوں اور غیر سرکاری اداروں کو دیتا ہے اور یوں ان حکومتوں کی معاشی دستاویزات (بیلنس شیٹ) میں ان قرضوں کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔
ان ’خفیہ قرضوں‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں 40 سے زیادہ کم اور اوسط آمدنی والے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے چین سے اپنی مجموعی قومی پیداوار کے دس فی صد سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔ چین نے جبوتی، زیمبیا اور کرغزستان کو جو قرضے دے رکھے ہیں ان کی مالیت ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کے کم از 20 فی صد کے برابر ہے۔ چین نے دنیا کے مختلف ممالک کو جو قرضے دیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے لیے ہیں، جن میں سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں کی تعمیر شامل ہے۔ ان میں کان کنی اور بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ جبوتی، زیمبیا میں چین کی افواج بھی موجود ہیں جن کو گارڈ کی حیثیت دی گئی ہے۔
اس حوالے سے چین کے ناقدین اکثر سری لنکا کی مثال دیتے ہیں جس نے برسوں پہلے چینی سرمایہ کاری سے بندرگاہ بنانے کا ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد اربوں ڈالر کا یہ منصوبہ تنازعات کا شکار ہو گیا اور سری لنکا کی معاشی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے اس نے سری لنکا پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ لاد دیا۔ آخر کار سری لنکا چین کی جانب سے مزید سرمایہ کاری کے عوض بندرگاہ کے 70 فی صد مالکانہ حقوق نوے کی دہائی میں چین کی سرکاری کمپنی ’چائنا مرچنٹ‘ کو دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس منصوبے پر اٹھنے والے سوالات کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ عشرے کے دوران سری لنکا میں چین کے معاشی عمل دخل میں اضافہ ہوا اور یہ خدشات بھی اپنی جگہ قائم ہیں کہ اس منصوبے کے ذریعے چین خطے میں اپنے سیاسی عزائم کو وسعت دے سکتا ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان میں بھی نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی چینی قرضے تنازعات کا شکار رہے ہیں کیونکہ ان منصوبوں میں بھی ایسی شرائط موجود ہیں جن کی بدولت چین کئی ممالک کے اثاثوں پر اپنے کنٹرول میں اضافہ کر سکتا ہے۔
چین مختلف ممالک کو دیے جانے والے قرضوں کی تفصیل شائع نہیں کرتا اور دیگر ممالک کے ساتھ کیے جانے والے اکثر معاہدوں میں ’نان ڈسکلوژر‘ کی ایسی شرائط شامل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قرض لینے والے ممالک کو پوری طرح معلوم نہیں ہو سکتا کہ معاہدے میں کیا کچھ شامل ہے۔ تاہم چین کا مؤقف یہ ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ قرضوں کے بین الاقوامی معاہدوں میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ عالمی بینک کی طرف سے فراہم کیے جانے والے اعداد وشمار کے ذریعے ہم واضح طور پر چین اور دیگر بڑے ممالک کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کا تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں۔ دیگر عالمی اداروں اور مغربی ممالک کے مقابلے میں چینی قرضوں پر شرح سود زیادہ ہوتی ہے۔ چینی قرضوں کی شرح سود عموماً 4 فی صد کے قریب ہوتی ہے جو بینکوں کی شرح سود کے برابر ہے تاہم عالمی بینک یا فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے قرضوں سے چار گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چینی قرضہ لوٹانے کی مدت بھی عموماً کم ہوتی ہے یعنی اکثر دس برس سے کم۔ اس کے مقابلے میں دیگر ادارے یا ممالک ترقی پزیر ممالک کو جو رعایتی قرضے دیتے ہیں وہ 28 برس کے لیے ہوتے ہیں۔
چین کے سرکاری بینک وغیرہ جو قرض دیتے ہیں اس میں یہ شرط شامل ہوتی ہے کہ قرض لینے والا ملک کسی آف شور اکاؤنٹ میں کم از کم اتنی رقم ضرور رکھے گا، جو چین قرض نہ لوٹانے کی صورت میں نکلوا سکتا ہو۔ حالیہ عرصے میں دنیا کے امیر ترین ممالک کے گروپ ’جی 20‘ نے غریب ممالک کے قرضے معاف کرنے یا ان میں نرمی کرنے کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان ممالک کو کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں مدد کی جائے۔ چین بھی اس منصوبے میں شامل ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے اس منصوبے میں حصہ لینے والے تمام ممالک سے زیادہ رقم فراہم کی ہے۔