عصر حاضر میں باطل قوتوں کی جانب سے نبوت و رسالت پر جو رکیک اور ناروا حملے کیے جارہے ہیں، اس قسم حرکتیں آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں اور شیطان کے حواریوں کا یہی شیوہ رہا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی ذاتِ گرامی کو دْشنام طَرازی اور تضحیک کا نشانہ بنانا دراصل یہ ان کی شکست خوردگی، بزدلی، تباہی و بربادی کے ایام کی کھلی نشانیاں ہیں۔
مجھے اپنے کالج کے ابتدائی دور کا واقع یاد آرہا ہے، 24 فروری 1989ء کو دینی جماعتوں و علماء کرام، قائدین و دانشورانِ ملت کی جانب سے احتجاجی ریلی کی کال دی گئی، اس جلوس کی وجہ؛ ہند نژاد شاتم رسول بدنام زمانہ مردود و ملعون سلمان رشدی نے اپنے شیطانی آقاؤں کی شے پر ایک کتاب لکھی تھی۔ جس میں اس ذلیل و ملعون، خبیث اولاد اور بدکردار انسان نے رسول اللہ اور ازواجِ مطہرات کی شان میں گستاخیاں کیں۔ اسی کی مخالفت میں قلب ِ ممبئی کے مستان تالاب سے برٹش ہائی کمیشن کے دفتر تک ایک احتجاج منعقد کیا گیا تھا۔ اس وقت ہم مہاراشٹر کالج میں طالب علم تھے۔ کالج کے طلبہ نے بھی اس احتجاج میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ مسلمانوں کے اس احتجاجی مظاہرے کے منتظمین و قیادت کو قبل از وقت گرفتار کرلیا گیا، لیکن عشقِ بلا خیز کا قافلہ کہاں رکتا؟ وہ بھی ایسی اجتماعیت جو نامْوسِ رِسالَت کی تَقَدّْس و حرمت کے لیے جمع ہوئی تھی۔
بحیثیت ِ مسلمان رسولِ کریمؐ کی عفت و عظمت، عزت و حرمت اہل ایمان کا جزوِ لاینفک ہے۔ حبِ رسولؐ وہ سدا بہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایہ زیست ہے۔ حبِ رسولؐ ایمانیات میں سے ہے اور آپ کی شانِ مبارک پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔ انہیں تعلیمات کے پیش ِ نظر مسلمانان بمبئی نے اپنی دینی و ملی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس کرافورڈ مارکیٹ تک پہنچا ہی دیا، لیکن کرافورڈ مارکیٹ پہنچنے کے بعد ایک متعصب اعلیٰ پولیس افسر شنگارے نے نہتے مسلمانوں پر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندھادھند گولیاں برسانی شروع کردیں، جس کے نتیجے میں 11 مسلم نوجوان شہید ہوئے اور کئی مسلمان زخمی ہوئے۔ ٹھیک ایسی ہی مثال حال ہی میں قائم کی گئیں؛ نامْوسِ رِسالَت کی عزمت کے لیے جمع ہوئے مسلمانوں پر شرپسندوں کے ذریعے پتھراؤ کیا گیا اور بعد میں اپنے کارندوں کے ذریعے گولیاں چلائیں گئیں، جس کے نتیجے میں کئی مسلمان نوجوانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔
33 سال پہلے ایک باپ جس کا واحد سہارا اس کا بیٹا تھا، اس باپ نے نامْوسِ رِسالَت پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہید بیٹے کے لیے شہداء کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ میں ببانگ ِ دہل یہ کہا کہ ’’اگر اللہ نے مجھے اور بھی اولاد دی ہوتی تو میں نامْوسِ رِسالَت پر انہیں بھی قربان کردیتا‘‘۔ ٹھیک 33 سال بعد ایسے ہی جملے ایک ماں کی زبان سے ان کانوں نے سنے، جس کے لخت جگر کو نامْوسِ رِسالَت کے احتجاج میں نہتے سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا۔ اس ماں کے جملہ بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔ ماں نے کہا ’’میرا بیٹا! اسلام زندہ باد کے نعروں کی صدا بلند کرتے ہوئے شہید ہوا ہے، اسلام زندہ تھا، اسلام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ میرا 16 سالہ بچہ اپنے اسلام کے لیے شہید ہوا ہے، اس ماں کو فخر ہے۔ پیارے نبی کے لیے اپنی جان دی ہے، اس نے شہادت کا درجہ پایا ہے مجھے کوئی غم نہیں‘‘۔
مظلوم ماں اور باپ کے یہ الفاظ ہم مسلمانوں کی ذہنیت اور طرزِ فکر و حیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہم اپنے مذہب، نبی اکرمؐ کی مقدس و مطہر شخصیت اور صحابہ کرام کی ذات پر کسی قسم کی مصالحت نہیں کرتے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جانوں کے نذرانے ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے۔
ہزار جدت طرازی کے لباس بدلا کرے زمانہ
مگر یقینا رہے گا عامر مزاجِ باطل وہی پرانا
مسلمان کے نزدیک اللہ کے رسول کی محبت عین ایمان ہے، مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اللہ کے رسول کی شانِ اقدس میں ادنیٰ سی گستاخی کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔ نبی کریم خاتم النبیینؐ اور امت مسلمہ کے مابین وہی ربط و تعلق ہے جو جسم و جان کا ہے۔ آپؐ کی نامْوسِ و تَقَدّْس ملت اسلامیہ کا اہم فریضہ ہے۔ مسلمان آپؐ کی توہین، تنقیص، بے ادبی برداشت نہیں کرسکتا، وہ اپنے نبی کریمؐ کی عزّت و نامْوسِ پر شہید ہونے اور عِفَّت و تَقَدّْس کی خاطر دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کو زندگی کا مقصد سمجھتا ہے۔ انہی بنیاد پر جس خطہ میں بھی مسلمان اہل اقتدار رہے وہاں کی عدالتوں نے اسلامی قانون کی رو سے شاتمانِ رسول کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ جہاں اقتدار نہیں رہا وہاں جانثارانِ رسولِ اکرمؐ نے رائج الوقت قانون کی پروا کیے بغیر گستاخانِ رسول و شاتم رسول کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے ہوئے، چہرہ منور پر مسکراہٹوں کے ساتھ پابند سلاسل ہوئے یا تختہ دار کو چومتے ہوئے جام شہادت نوش فرماتے ہوئے، اپنے ربّ حقیقی سے جاملے۔ رہتی دنیا تک وہ لوگ زندہ ہوگئے۔ جانثارانِ تَحَفّْظ نامْوسِ رِسالَت سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہیں۔ وہیں شاتم رسول کا انجام دنیا کے لیے نشان عبرت ہوچکا ہے۔
نامْوسِ رِسالَت کی محافظت کے لیے ہمیں بحیثیت امت و فرد اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ اہل حق علمائے کرام، مخلص قائدین و دانشورانِ ملت اور جماعتوں و اداروں کو آگے آنا ہوگا۔ ورنہ اس سفینے کی حفاظت تو اللہ ضرور کرے گا، مگر اس وقت افسوس ہائے۔ افسوس ہمارے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
موجودہ دور میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والے بدبختوں نے یہ سوچا ہے کہ اب یہ امت مسلسل ظلم و جبر کے نتیجے میں کمزور ہوگئی ہے وہ اس طرح کے معاملات کو ہضم کرلے گی، لیکن غیرت مند مسلمانوں نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا، جس نتیجہ میں اذیتوں و شہادتوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
ہم اجتماعی طور پر ایک دن کو مختص کریں جسے ہم ’’یوم تَحَفّْظ نامْوسِ رِسالَت‘‘ کے نام پر منائیں۔ اس دن ہم نامْوسِ رِسالَت پر مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دیں۔ سیرتِ محمد مصطفیؐ کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کریں۔ چھوٹے بچوں میں سیرت لیکچر سیریز کا اہتمام کریں۔ غیر مسلموں میں بھی نبی کریمؐ کی عزمت و عزت کو پروان چڑھانے کے لیے مقامی زبانوں میں سیرت طیبہ پر کتابیں ان تک پہنچائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایکشن کمیٹی برائے تَحَفّْظ نامْوسِ رِسالَت کی بنا بھی ڈالیں۔ ملک کی تمام مذہبی و سیاسی تنظیمیں، تمام مکاتب فکر کے افراد متحد اور پرعزم ہوکر ایک اجلاس منعقد کرکے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں، جس میں تَحَفّْظ نامْوسِ رِسالَت کو یقینی بنانے کے لیے بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمے داریاں ہوسکتی ہیں اس پر امت مسلمہ کی رہنمائی کریں۔ اگر ہمارے دانشورانِ ملت، جماعتیں اور ادارے اتنا بھی نہ کریں تو حیف ہے ہمیں ہماری اجتماعیت پر۔ جو قوم اپنے نبی کریمؐ کی عصمت و عفت کی محافظت نہیں کرسکتی وہ کبھی بھی اپنے دشمنوں پر فتح و نصرت اور غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ نامْوسِ رِسالَت امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس انتہائی حساس مسئلے پر باطل قوتوں کی شرارتوں اور شرانگیزیوں سے کیسے ہم اپنے معاملات کو محفوظ کرسکتے ہیں اس پر ہمیں کوئی کوئی نا کوئی خاکہ بنانا پڑے گا۔
حکومتی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے کیا مستقل لائحہ عمل اور خطوط ترتیب دیے جاسکتے ہیں اس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اور اس سلسلے میں حجت تمام کرنی ہوگی۔ آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر کسی کے جذبہ ایمانی کو مجروح کرنے اور مقدس مذہبی شخصیات کی شان میں گستاخی کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے! گستاخی کا ارتکاب کرنے والے بدبخت اور بدطینت افراد کو نشانِ عبرت بنانا ہی اس مسئلے کا حل ہوگیا ہے۔