ہدف پاکستان، چین فائدہ اسرائیل، بھارت؟I2U2

520

جاپان نے 24مئی 2022ء کو یہ دعویٰ کیا ہے کہ دارالحکومت ٹوکیو میں ’کواڈ‘ کے سربراہ اجلاس کے دوران اسے اس وقت اپنے جنگی طیاروں کو فضا میں بھیجنا پڑا جب مبینہ طور پر چین اور روس کی فضائیہ کے لڑاکا طیارے اس کی فضائی حدود کے قریب آ رہے تھے۔ جاپانی وزیر دفاع نوباؤ کیشی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چین اور روس کی طرف سے یہ حرکت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب جاپان کواڈ میں شامل ملکوں کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کر رہا تھا یہ صریحاً اشتعال انگیزی ہے۔ امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا ’کواڈ‘ میں شامل ہیں جس کو ایک غیر رسمی عسکری اتحاد کہا جاتا ہے۔ مئی 2022ء میں ہونے والے اجلاس کے بطن سے I2U2 کا وجود سامنے آچکا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ I2U2 کی مدد سے بحرالکاہل اور بحیرہ ہند کے خطے میں دفاعی اور سلامتی کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ امریکا ایشیائی خطے میں ہر صورت اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں ہے 31اگست 2021ء کو افغانستان سے شکست کے بعد امریکا یہی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کسی طرح ایک مرتبہ پھر بگرام ائر بیس جیسی جگہ تلاش کرلے اور اس کے لیے سب اہم جگہ پاکستان ہے۔ جہاں امریکا ایک نیا بگرام ائر بیس بنانے کوشش کر رہا ہے۔ I2U2 اتحاد میں امریکا نے متحدہ امارات کو اسی مقصد کے لیے شامل کیا ہے کہ وہاں بھی امریکا کے فوجی اڈے موجود ہیں اور امارات سے ترکی کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ بلگرام ان اہم جگہوں میں سے ہے جس کا تذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں کیا گیا تھا جس کے مطابق سی آئی اے ان حراستی مراکز میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تشدد کے ذریعے تفتیش کیا کرتی تھی۔ اسے کیوبا میں واقع بدنامِ زمانہ امریکی فوجی جیل کے نام پر ’افغانستان کا گوانتا نامو‘ کہا جاتا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن آئندہ ماہ، 12 سے 16 جولائی تک مغربی ایشیا کے دورے پر ہوں گے۔ اس دوران بائیڈن ایک ورچوئل کانفرنس میں شامل ہوں گے جس میں انڈیا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل بھی موجود ہوں گے۔ اس بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے اخبارات کو بتایا کہ چار ممالک کے اس نئے اتحاد کا نام I2U2 (آئی ٹو یو ٹو) ہوگا۔ اس گروپ میں ’آئی ٹو‘ انڈیا اور اسرائیل کے لیے اور ’یو ٹو‘ امریکا اور متحدہ عرب امارات کے لیے ہے۔
ان چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ اکتوبر 2021 میں ہوئی تھی۔ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر اس میٹنگ میں شرکت کے لیے اسرائیل گئے تھے۔ اس وقت چار ممالک کے اس گروپ کا نام ’انٹرنیشنل فورم فار اکنامک کوآپریشن‘ تھا۔ اب چاروں ممالک کے سربراہ اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔ صدر بننے کے بعد سے جو بائیڈن کے سعودی عرب اور اسرائیل کے پہلے دورے کے اعلان کے بعد امریکی اخبارات کا کہنا کہ ’امریکا کے کچھ شراکت دار مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی ہیں‘۔ صدر بائیڈن آئی ٹو یو ٹو ممالک کے سربراہان کے ساتھ ایک ورچوئل کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’اس دوران رکن ممالک غذائی تحفظ کو لاحق خطرات اور دیگر شعبوں میں تعاون پر بات کریں گے۔ صدرِ امریکا اسرائیل کے وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ، انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید کے ساتھ ان مذاکرات کے منتظر ہیں‘۔
صدر بائیڈن اسرائیل کے دورے کے بعد مقبوضہ غربِ اردن جائیں گے جہاں وہ فلسطینی حکام کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ سعودی عرب میں شاہ سلمان سے بات کریں گے لیکن ان کے دورے میں شہزادہ سلمان سے بات چیت ممکن نہیں ہو سکے گی۔ یہاں بائیڈن خلیجی تعاون کونسل کی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ مصر، عراق اور اردن سمیت نو ممالک کے سربراہان اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس سب میں انڈیا کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ انڈیا صارفین کی ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جدید ٹیکنالوجی اور انتہائی مطلوب مصنوعات کا تیار کنندہ بھی ہے۔ بھارت میں متعدد شعبے ہیں جہاں یہ ممالک مل کر کام کر سکتے ہیں چاہے وہ ٹیکنالوجی ہو، کاروبار، ماحولیات، کووڈ 19 اور سیکورٹی۔
اکتوبر 2021 میں ہونے والی پہلی مرتبہ انڈیا، اسرائیل، امریکا اور متحدہ عرب امارات پر مبنی اس گروپ کے وزرائے خارجہ اجلاس سے لگایا جا سکتا ہے جس بحری سلامتی، انفرا اسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ جیسے اہم معاملات پر بات کی گئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک اہم نکتہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کا قیام تھا۔ انڈیا میں عرب امارات کے اس وقت کے سفیر نے اس اتحاد کو ’مغربی ایشیا کا کواڈ‘ قرار دیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے جنوری 2021 میں حکومت میں آنے کے بعد سے کئی گروپوں کے قیام کا اعلان کیا ہے جن میں آسٹریلیا امریکا اور برطانیہ (آکس)، اور افغانستان، پاکستان اور ازبکستان کے ساتھ چار افریقی ممالک شامل ہیں۔
خطے میں امریکا کی فوجی سرگرمیاں بڑھنے سے انڈیا کو اطمینان ہو رہا ہے؟ اس کا جواب بھارت کے دانشور یہ دے رہے ہیں یہ درست نہیں اس سے بھارت کو نقصان ہوگا۔ اس سے قبل امریکی صدر بائیڈن نے گزشتہ ماہ جاپان کے دورے میں انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک (آئی پیف) کا بھی اعلان کیا تھا جس میں انڈیا سمیت 13 ممالک شامل ہیں۔ بائیڈن نے سب سے پہلے اکتوبر 2021 میں آئی پیف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک کی تشکیل کی کوشش کرے گا۔ اس کے ذریعے ہم تجارت میں آسانی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی اسٹینڈرڈائزیشن، اور سپلائی چین کے معاملات میں بہتری لائیں گے۔ آئی پیف میں شامل 13 ممالک میں امریکا، آسٹریلیا، برونائی، انڈیا، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن اس دورے سے ایک اور تاریخ رقم کریں گے۔ وہ پہلی مرتبہ اسرائیل سے براہِ راست ریاض جائیں گے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات جانے والی اسرائیلی پروازوں کو اپنی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ بائیڈن 50 برس قبل پہلی مرتبہ اسرائیل گئے تھے جب وہ سینیٹر تھے۔ یہ بات ہمارے عوام اور خواص کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ 5 سال قبل بھی امریکا کے سابق صدر ٹرمپ بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے دورے پر گئے تھے جس کے بعد تین عرب ممالک اور ایک شمالی افریقی ملک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اس طرح ابھی تک چار ممالک یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں امریکا، کوسووو، سربیا، گوئٹے مالا شامل ہیں جس کی وجہ اسرائیل کو خطے کی عسکری برتری بڑھانے کا موقع ملا ہے اور اس کی خطے میں مخالفت میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ اب بائیڈن کے اس دورے بعد اسرائیل خطے میں مزید بہتر پوزیشن آ جائے گا۔