روس اور یوکرین کے تنازعے کو چار ماہ ہونے والے ہیں۔ بظاہر جنگ کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی کیوں کہ دونوں فریق مشروط جنگ بندی چاہتے ہیں۔ یہ جنگ کوئی ایک دو دن میں شروع نہیں ہوئی، کئی ماہ تک اس کی تیاریاں جاری رہیں۔ روس اپنی فوجیں یوکرین کی سرحد پر پہنچاتا رہا۔ اس موقع پر یوکرین اپنے خدشات کا اظہار کررہا تھا مگر اس کے بہی خواہ تماش بینی سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔ اس دوران روس کا موقف یہی تھا کہ وہ حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا مگر یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی کہ روس بلاوجہ اپنی فوجیں یوکرین کی سرحد تک نہیں لایا۔ یوکرین مسلسل اصرار کرتا رہا کہ اسے ناٹو کا رکن بنالیا جائے مگر امریکا اور یورپ اسے رکن بنا کر تیسری عالمی جنگ کے لیے تیار نہ تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ناٹو نے اس جنگ کو روکنے کی سنجیدہ و حقیقی کوشش بھی نہ کی۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے مگر خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی جارحیت کے نتیجے میں یوکرین تباہی سے دوچار ہے، اس کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا، معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا اور اگر یہ جنگ بند بھی ہوجائے تو یوکرین کو بحالی میں کئی سال لگ جائیں گے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ غذائی اجناس کے حوالے سے یہ ملک نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اس کی اجناس کی برآمدات دنیا بھر کی دس سے بیس فی صد ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ اسی طرح خوردنی تیل کے حوالے سے بھی یہ ملک اپنی برآمدات کے اعتبار سے بڑے حصے کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یوکرین کے پاس آج بھی غلے کے وافر ذخائر موجود ہیں مگر جنگ کی وجہ سے ان کی ترسیل ممکن نہیں۔ روس پر لگنے والی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے پٹرولیم کی مصنوعات بھی دگنی قیمت پر جا پہنچی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ایک بحران سے دوچار ہے، دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، خود پاکستان میں گزشتہ چار ماہ میں پٹرول کی قیمتیں تقریباً دگنی ہوچکی ہیں، پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے معاشی ترقی کا پہیہ بھی رُک جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے، ہمارے یہاں توانائی کا زیادہ تر انحصار فرنس آئل، پٹرول اور ڈیزل پر ہے اس لیے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر نظرثانی ہوتی ہے تو بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کے خاتمے کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس موقع پر اگر امریکا اور یورپ سنجیدہ کوشش کریں تو پٹرول اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں کمی لائی جاسکتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران کے ساتھ معطل شدہ مذاکرات کو سرعت کے ساتھ نہ صرف شروع کیا جائے بلکہ نتیجہ خیز بنانے کی بھی کوشش کی جائے، جب ایران پر سے معاشی پابندیاں اُٹھیں گی تو فوری طور پر 5 ملین بیرل روزانہ اور محض چند ہفتوں بعد دس ملین پٹرول روزانہ عالمی مارکیٹ میں آسکتا ہے۔ اتنے پٹرول کی آمد سے عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں نہ صرف کنٹرول ہوں گی بلکہ خاصی نیچے بھی آئیں گی۔ یہی نہیں خوردنی تیل کی تیاری کے حوالے سے بھی ایران ایک اہم ملک ہے۔ یہ الگ بات کے یوکرین کے برابر خوردنی تیل کی پیداوار نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ اشک شوئی کا اہتمام تو ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا کو مہنگائی کی دلدل سے باہر نکالنا ہے تو کچھ مشکل فیصلے تو کرنا ہی ہوں گے۔
یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایران گھٹنے ٹیک دے گا، طویل معاشی پابندی کے باوجود ایرانی حکومت اور عوام اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں، مانا کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کی مشکلات کچھ زیادہ ہیں مگر اپنی آزادی اور حمیت کے پیش نظر وہ جھک کر کوئی سمجھوتا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اگر امریکا اور یورپ اس خام خیالی میں ہیں کہ ایران کو دبایا جاسکتا ہے تو یہ محض ایک فریب ہے۔ ایران برابری کی بنیاد پر کوئی سمجھوتا کرسکتا ہے آج کی ضرورتوں کو اور بین الاقوامی طور پر بڑھتی مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اور مغرب کو چاہیے کہ ایران کے ساتھ فی الفور کوئی معاہدہ کرلیں۔ تا کہ بین الاقوامی برادری کو کچھ سہولت ہوسکے۔