ہم اللہ کے کرم سے مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا فرمان عالی شان ہے کہ: ’’مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘‘ مگر سرمایہ دارانہ نظام اس کے برعکس ہے، کام لے لیا جاتا ہے اور اجرت وصول کرنے کے لیے مزدور چکر پر چکر لگاتا رہتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے زیادہ مظلوم مزدور نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا کے فیکٹری میں مزدور نوکری کرتا تھا اس کو مالک خود نوکری پر رکھتا تھا پھر سرمایہ دارانہ نظام نے غریب کا خون چوسنے کے لیے اس نظام میں تھرڈ پارٹی کو ڈال دیا اب مزدور سے اس کی دلچسپی ختم ہوگئی کیوں کہ اس نے ٹھیکے داری کا ایک نظام قائم کردیا اب وہ اجرت مزدور کو دینے کے بجائے معاہدے کے مطابق اجرت ٹھیکے دار کو دیتا ہے اس کو اگر غرض ہے تو بس اپنی پروڈکشن سے وہ سارا کام ٹھیکے دار کو بتاتا ہے اور مزدور سے کام لیتا ہے ٹھیکے دار صرف فیکٹری ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں تھرڈ پارٹی لازم و ملزوم سمجھی جاتی ہے اب کوئی بڑا ادارہ نوکری نہیں دیتا۔ فیکٹریوں کے مزدور 10 ہزار سے 15 ہزار روپے ماہانہ لے کر کام کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ٹھیکے دار مالکان سے 20 سے 25 ہزار فی مزدور کے حساب سے اجرت وصول کرتا ہے اس سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت وہ مڈل مین یعنی ٹھیکے دار چند سال میں لکھ پتی پھر کروڑ پتی بن جاتا ہے اس کے برعکس مزدور کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔ سیکورٹی کمپنیوں کو اٹھا کر دیکھ لیں آج سیکورٹی گارڈ کو کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ 10 سے 15 ہزار اس پر سونے پر سہاگا کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔
ریٹائرڈ فوجی افسران اور ریٹائرڈ پولیس افسران نے سیکورٹی کمپنیاں بنا رکھی ہیں یہ گارڈ اداروں میں صبح سے رات تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں ابھی حال ہی کا ایک واقعہ ہے کہ اندرون سندھ سے ایک گارڈ کراچی نوکری کرنے آیا، کراچی میں ایک حادثے میں اس کے نوجوان بیٹے کا انتقال ہوگیا اس غریب کے پاس میت لے جانے کے پیسے تک نہیں تھے، اس موقع پر میرے محسن کام آئے۔ اگر گارڈ بیمار ہوجائے تو اُس کو کوئی میڈیکل کی سہولت نہیں ملتی اور اگر بیماری کی حالت میں یہ چھٹی کرلے تو کمپنی اس کی تنخواہ کاٹ لیتی ہے جو یونی فارم کمپنی دیتی ہے اس کے پیسے بھی کاٹ لیتی ہے۔ آج جو ملک کا حال ہے اس میں غریب مزدوروں کی بددعا بھی شامل ہے۔ اب نجی اداروں، فیکٹریوں اور دفاتر میں صفائی کا کام بھی تھرڈ پارٹی کے ہاتھوں میں آگیا ہے کئی لوگوں نے Cleaning sweeping کی کمپنیاں بنا لی ہیں یہ کمپنیاں دفاتر، اسکول، اسپتالوں اور بڑے اداروں کو بھنگی فراہم کرتی ہیں۔ یہ کام کو زیادہ تر عیسائی بھائی ہی کرتے ہیں مگر افسوس بے روزگاری کی وجہ سے مسلمان نوجوان بھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی یہ نوکری کرنے پر مجبور ہیں تمام بینکوں، سروس سینٹر وغیرہ میں تھرڈ پارٹی پر صفائی کا کام لیا جارہا ہے، مڈل مین جس نے کمپنی بنا رکھی ہے وہ بس اداروں سے عملے کی تنخواہ میں سے ایک حصہ بغیر محنت کے کھارہا ہے۔ صبح 9 سے 4 بجے تک ان سے کام لیا جاتا ہے، چائے دینا، بل وغیرہ بھی جمع کروا کراتے ہیں، تو کوئی 20 روپے تو کوئی 50 روپے ان کو دے دیتا ہے، ان کی فل ٹائم کی تنخواہ جو کمپنی ان کو دیتی ہے وہ ہے 10 ہزار اور جو پارٹ ٹائم آتے ہیں ان کو کمپنی 5 ہزار تنخواہ دیتی ہے۔ اس پر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان غریبوں کو پہلی تاریخ پر تنخواہ نہیں ملتی، وہ بیچارے لوگوں سے پیسے مانگ کر گھر سے دفتر آتے ہیں، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کیا ملک سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔ ان کو اعلان کے مطابق 25 ہزار کون دے گا؟۔
ابن آدم کا ملک کے اُن اداروں سے سوال ہے جو یہ حکم جاری کرتے ہیں۔ مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ آپ کے اپنے صوبے کے کئی محکموں میں بھی یہی کچھ حال ہے، حکومت سندھ کا ایک ادارہ ہے جس میں لڑکیوں کو ہنر مند بنایا جاتا ہے۔ (STEVTA) اس ادارے کی جملہ کارکردگی سندھ کے تعلیمی اداروں سے بہتر ہے کیوں کہ سرکاری سطح پر بھرتی کرنا منع تھا لہٰذا وہاں آئی ایم سی کے نام سے ایک غیر سرکاری اور سرکاری لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس میں تاجر اور صحافی بھی شامل ہیں انہوں نے آئی ایم سی کی زیر نگرانی بھرتیاں کرلیں جو اچھا عمل ہے جن کو بھرتی کیا جاتا ہے ان کے لیٹر پر لکھا ہوتا ہے کہ آپ کو 6 یا 3 ماہ
کے لیے عارضی طور پر رکھا گیا ہے آپ کنٹریکٹ پر رکھی یا رکھے گئے ہیں۔ لہٰذا آپ کو مستقل نہیں کرسکتے، آپ کو کوئی سرکاری رعایت نہیں ملے گی، آپ کی تنخواہ کا سرکاری تنخواہ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا آپ اس کو کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کرسکتے۔ آپ کو سال میں 12 چھٹیاں دی جائیں گی اگر زیادہ کرلیں تو تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ آپ کو بغیر کسی نوٹس کے نوکری سے نکالا جاسکتا ہے اور اگر آپ خود نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں تو ایک ماہ کی آپ کی تنخواہ آئی ایم سی رکھنے کا مجاز ہے۔ آئی ایم سی سے مراد (Inter Management Committee) ہے۔ یہ تو تھے وہ قانون جو آئی ایم سی کے لیٹر میں درج ہیں اب کچھ خاص بات بتادیتا ہوں کہ دفتر کی اوقات صبح 9 بجے سے 5 بجے تک اس سینٹر میں کام کرنے والے سندھ حکومت کے ملازم 12 بجے آتے ہیں اور 4 بجے گھر چلے جاتے ہیں اور کچھ تو ہفتہ ہفتہ غائب رہتے ہیں۔ عارضی ملازمین کی تنخواہ 8 ہزار کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ 12 ہزار مہینہ ہے وزیر اعلیٰ سے میری درخواست ہے کہ آئی ایم سی میں کام کرنے والے ملازمین کو فوری طور پر مستقل کیا جائے یا اعلان کے مطابق کم از کم تنخواہ 25 ہزار ادا کی جائے۔ یہ 25 ہزار کا مقدمہ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں گیا پھر سندھ منیمم ویج بورڈ نے بھی اس کو منظور کردیا تھا۔ وزیراعلیٰ صاحب آئی ایم سی کا عملہ نہایت ایمانداری اور محنت سے پورے وقت نوکری کررہا ہے جب کہ آپ کے محکمے کے مستقل ملازمین عیاشی کررہے ہیں، کم تنخواہ میں آئی ایم سی کا عملہ وہاں کے مستقل ملازمین کا کام بھی کرتا ہے۔