پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سابق صدر آصف زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ پورا حصہ لیں گے۔ حکومت میں آئے تو ملک کو 110 ڈگری پر بدلوں گا خود پنجاب میں بیٹھوں گا اور سب کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔ انہوں نے سابق وزیراعظم پر الزام لگایا کہ انوکھے لاڈلے کے چار سالہ دور کی پالیسیوں کے سبب آج بے انتہا مہنگائی ہے۔ کسی بھی پارٹی کا سیاست میں حصہ لینا، ملک میں حکمرانی کرنے کی خواہش کرنا اس کا دعویٰ کرنا بھی غلط نہیں، یہ ہر ایک کا حق ہے لیکن آصف زرداری صاحب کے انداز سے لگ رہا ہے کہ وہ کچھ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے، لینے ہی کا ارادہ ہے۔ کیوں کہ انہوں نے کہا ہے کہ پورا حصہ لیں گے۔ جس ملک میں عوام کی بھاری اکثریت دو وقت کی روٹی کو محتاج ہورہی ہے، بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، صحت کی سہولیات نہیں ہیں، انصاف نہیں ہے، وہاں حکومت میں آنے کی خواہش تو جائز ہے لیکن اپنا حصہ لینے اور پورا لینے کے عزائم سے خطرے کی بُو آرہی ہے۔ ملک کو 110 ڈگری پر بدلنے کی بات کرنا تو آسان ہے لیکن پیپلز پارٹی نے جہاں جہاں جب جب حکومت کی ہے ملک کو 360 ڈگری پلٹ دیا ہے، عمران خان نے چار سال میں ہر شعبے میں 360 ڈگری کا پلٹا کھایا ہے۔ اس ملک کی بنیادوں تک کو کھوکھلا کر ڈالا ہے، جو فوج پر نہیں لائی تھی اسے ہی اب نشانے پر رکھا ہوا ہے، عدلیہ کے جو فیصلے اپنے حق میں ہوں تو ٹھیک ورنہ سب غلط۔ جناب آصف زرداری کی پارٹی 1972، 1988، 1996 اور 2008 میں اقتدار میں بلا شرکت غیرے ہی رہی معمولی اتحادیوں کا ساتھ رہا اور اب ایک بار پھر وہ حکمران اتحاد کا اہم حصہ ہیں۔ ان چار ادوار میں انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ملک کے عوام کو کیا دیا۔ صرف پیپلز پارٹی نہیں مسلم لیگ (ن)، (ق)، جرنیلوں اور پی ٹی آئی نے جو کچھ دیا وہ حساب کے قاعدے سے صفر جمع صفر برابر ہے۔ صفر کے مصداق ہے۔ ملک مسلسل پیچھے کی طرف جارہا ہے، پورے ملک کو چلانے والے کراچی کو ایم کیو ایم نے تباہ کیا پیپلز پارٹی نے اس کا بھی ساتھ دیا ۔ ایک زرعی ملک جو گندم، کپاس، ڈیری، کھیلوں کے سامان، آلات جراحی، ٹیکسٹائل مصنوعات، شکر اور بہت ساری چیزوں میں خود کفیل اور برآمد کنندہ تھا اب زرعی اجناس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ بجلی کی قلت 6 ہزار میگاواٹ تک پہنچادی ہے۔ ایندھن مہنگا ہی ہوتا چلا جارہا ہے لیکن کوئی عملی اقدام نہیں، صرف آئی ایم ایف کا ایجنڈا نافذ ہورہا ہے۔ کسی کے پاس بھی مسائل کا حل نہیں، ڈھٹائی اتنی ہے کہ عمران خان چار سالہ ناکامیوں کے بعد بھی خود کو ملک کے لیے نجات دہندہ تصور کررہے ہیں۔ آصف زرداری کا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے اور مسلم لیگ (ن) بھی یہی سمجھتی ہے لیکن یہ سب حکومت کے باوجود ملک کے عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے۔ یہ حکومت میں ہوں یا باہر صرف دعوے کرسکتے ہیں اور باتیں کرنے کے استاد ہیں۔ زرداری صاحب حکومت لینے کی بات نہ کریں ملک و قوم کو کچھ دینے کی بات کریں۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ پورا حصہ لیں گے۔ ضرور لیں لیکن اگر یہ لوگ اپنے اپنے دور میں حصہ لے کر بھی عوام کو دس فی صد بھی دے رہے ہوتے تو آج عوام کے مسائل حل ہوچکے ہوتے یہ نو دس حکومتیں صرف لینے کے لیے اقتدار کی خواہش کیوں رکھتی ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ان سب کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ صرف ہمارے پاس آئی ایم ایف کی غلامی سے نکلنے کا نظام ہے۔ ایک زرخیز ملک کی قیادت فکری خشک سالی کا شکار ہے ورنہ جس نظام کی بات سراج الحق صاحب نے کی ہے وہ سب کو معلوم ہے لیکن کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ سراج صاحب نے منحوسیت اور معاشی تنگی کے بنیادی سبب سودی نظام کا ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے اسے ختم کردیں گے۔ اب تو شریعت عدالت نے ایک بار پھر خط دے دیا ہے ۔ اللہ کی نہیں مانتے عدالت ہی کی مان لیں ۔ سراج صاحب نے کہا کہ پھر زکوٰۃ، عشر کا نظام نافذ کریں گے، اس سے بڑھ کر کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور بچائے ہوئے وسائل عوام کی فلاح پر خرچ کریں گے۔ سرکاری اخراجات میں بچت کریں گے، وزرا اور مشیروں کی عیاشیاں ختم کریں گے۔ یہ نظام سب جانتے ہیں لیکن اس کی راہ میں سب مل کر روڑے اٹکاتے ہیں۔ اس نظام کا راستہ روکنے کے لیے ان کے اتحاد بنتے ہیں، نئی نئی پارٹیاں پیدا کی جاتی ہیں اور نت نئے تجربات کیے جاتے ہیں۔ یہاں پاکستانی قوم کی غلطی بھی سامنے آتی ہے کہ وہ کسی ایک پارٹی کا ہی احتساب کرلیں کہ وہ حکومت میں آنے اور جانے کے وقت اپنے اپنے لیڈروں کے اثاثے تو بتائے۔ افسوسناک صورت حال ہے کہ سب کے اثاثے بڑھ جاتے ہیں اور ملک کے اثاثے بک جاتے ہیں۔ حکومت نہیں چلتی تو سرکاری اداروں کی نجکاری کی بات کرتے ہیں ۔ حکومت کی بھی نجکاری کیوں نہیں کر دیتے ۔