پاکستان میں اب تک ایک دو نہیں اتنے حکمران آ چکے ہیں کہ اگر کسی ذہین سے ذہین پاکستانی سے کہا جائے کہ 1947 سے لے کر اب تک یعنی، 17 جون 2022 تک جتنے سربراہانِ مملکت آ چکے ہیں تو مجھے یقین ِ کامل ہے کہ کوئی نہ کوئی نام ایسا ضرور ہوگا جس کو وہ شمار کرنا بھول جائے گا۔ ماضی و حال کے سارے حکمران بے شمار کمزوریوں اور نااہلیوں کا شکار ضرور رہے ہوں گے لیکن شاید ہی کوئی ایسا حکمران ہو جس کو بزدل یا خراب حالات کو سامنے دیکھتے ہوئے اپنے فرائض منصبی سے منہ موڑتے دیکھا ہو، سوائے عمران خان کے۔
پی ٹی آئی کے ایک دو نہیں، متعدد رہنما میرے اس تبصرے کے گواہ ہیں کہ جب عمران خان نے یہ محسوس کیا کہ اب حالات ان کے قابو سے باہر نکلتے جا رہے ہیں، ساری تدبیریں اُلٹی ہوتی جا رہی ہیں اور تمام کی تمام حکیمانہ دوائیں مرض میں افاقہ کے بجائے مرض کو بڑھاتی ہی جا رہی ہیں تو اب ایک بزدل حکمران کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کر دے کہ ان کو لانے والے اس بات پر مجبور ہو جائیں کہ ان کا بوریا بستر جس طرح بھی ممکن ہو گول کر دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے کئی بڑے بڑے رہنمایانِ قوم واشگاف الفاظ میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں یعنی پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ احساس خوب اچھی طرح ہو چکا تھا کہ دو چار ماہ بعد ان کی حکومت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ اس بیان کی تصدیق کے لیے عمران خان کا وہ اعلان جس میں پٹرول کی قیمت کو 160 کرنے اور آئی ایم کی شرائط کے مطابق اگلے پندرہ دن کے بعد مزید 10 روپے بڑھانے کی سفارش پر عمل کرنے کے بجائے پٹرول کی قیمت 160 سے کم کرکے 150 کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ اب اگلے بجٹ تک پٹرول کی قیمت میں کسی قسم کا کوئی اضافہ کیا ہی نہیں جائے گا کیونکہ میں غریب عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو یہ احساس خوب اچھی طرح ہو چکا تھا کہ آئندہ آنے والے بجٹ سے پہلے پہلے وہ اقتدار سے فارغ کر دیے جائیں گے۔ جس طرح انہیں یہ احساس پٹرول کی قیمت 160 تک لے جاکر واپس 150 پر لانے کے بعد ہوا کاش یہ احساس انہیں پٹرول کی قیمت کو تقریباً 80 روپے سے 160 تک پہنچانے سے پہلے ہوجاتا تو شاید پاکستان کے جو حالات اس وقت ہیں وہ آج سے بہت مختلف ہوتے۔
ان کے پونے چار سالہ دور میں مہنگائی کا جو طوفان برپا ہوا تھا وہ بے شک ان کی مجبوری رہا ہو اور ایسا ہونا یقینی ہی کیوں نہ ہو لیکن حالات اس حد تک خراب ضرور ہو گئے تھے کہ ان کا کوئی ایک رہنما بھی عوام کے سامنے آنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ اسمبلیوں اور اسمبلیوں سے باہر ان ہی کے ارکان اُس وقت کی موجودہ صورت حال سے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے تھے اور اکثر مقامات پر عوام کا سامنا ہونے پر انہیں اپنے اپنے حلقوں میں عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلے تو پی ٹی آئی کے اتحادی ان سے الگ ہونا شروع ہوئے اور پھر ایک بڑی تعداد خود پی ٹی آئی کے ارکان کی ان سے جدا ہونا شروع ہو گئی۔ اتنی گمبھیر صورتِ حال کے باوجود کبھی عمران خان یا ان کی پارٹی کے کسی رہنما کی جانب سے یہ بات کسی بھی پلیٹ فارم سے نہیں کہی گئی کہ ان کے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش کی جا رہی ہے۔ حالات کا یہ رخ دیکھ کر بھی پی ٹی آئی کی جانب سے اس بات کی کوئی کوشش نظر نہیں آئی کہ ایک جانب تو وہ معاشی صورت ِ حال کی جانب مثبت توجہ دے اور دوسری جانب اپنے اتحادیوں کو جس طرح بھی ممکن ہو، اپنے اعتماد میں لے۔ شاید عمران خان کو گمان یہ رہا ہو کہ جس طرح اول روز سے ’’پس ِ پردہ‘‘ والے سرِ آئینہ والوں کو ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کرتے رہے ہیں، اب بھی ایسا ہی ہوگا لیکن جب مڑ کر دیکھا تو چڑیائیں سارا کھیت چگ چکی تھیں۔
اتنے نازک حالات کے باوجود عمران خان یا تو ماضی کی حکومتوں کو برا بھلا کہتے رہے یا پھر مختلف طریقوں سے اپنے پشت پناہوں کو دھمکاتے رہے جس میں ’’میں اور خطرناک ہو جاؤں گا‘‘ اور ’’ہم کوئی آپ کے غلام ہیں جو آپ کی ہر بات مانیں جائیں‘‘ وغیرہ جیسی دھمکیاں شامل تھیں۔ اصل میں ’’ہم کوئی آپ کے غلام ہیں‘‘ والی بات امریکا کے لیے نہیں، اپنے لانے والوں کے لیے تھیں جس نے بعد میں ’’حقیقی آزادی‘‘ کے نعرے کی شکل اختیار کر لی۔
میں عمران حکومت کو بزدل حکمران صرف اس لیے کہتا ہوں کہ سازشیں عالمی ہوں یا ملکی، دشمن بیرونی ممالک والے ہوں یا ان کے بقول اندرونی میر صادق اور میر جعفر، بہادر وہی ہوتا ہے جو ٹیپو سلطان، جس کا حوالہ عمران خان بہت فخریہ انداز میں دیتے ہیں، ان کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونا تو گوارہ کر لیتا ہے لیکن مسند ِ اقتدار چھوڑ کر فرار نہیں ہوا کرتا۔ عمران خان بجائے ہر قسم کے معاشی، سازشی، میر جعفری و میر صادقی حالات کا مقابلہ کرنے، اپنے اتحادیوں اور اپنے ہی ارکان کو اپنے اعتماد میں لینے کے بجائے وحشی مارہروی کے اس شعر کی مثال بن گئے کہ:
لنگوٹی جھاڑ کے بھاگا ہے اب کے جانبِ صحرا
نسیم صبح نے وحشی کو کیا پٹی پڑھائی ہے
یاد رہے کہ ٹیپو سلطان کی طرح خون کے آخری قطرے تک اپنی بات پر ڈٹے رہنے کے بجائے فرار ہوجانے کو ’’جہاد‘‘ سمجھنے والا عبد اللہ ابنِ ابی تو ہو سکتا ہے بدر کے میدان کے 313 مجاہدین کی طرح کسی صورت نہیں ہو سکتا۔