ورفعنا لک ذکرک

579

خبر ہے کہ پاکستانی ہیکرز نے بھارت کے آر ایس ایس حمایت یافتہ ٹی وی چینل ’’ٹائمز 8‘‘ کو لائیو اسٹریمنگ کے دوران ہیک کرکے نعت لگا دی۔ نعت کے ساتھ ساتھ اسکرین پر ناصرف پاکستانی جھنڈا دکھائی دے رہا تھا بلکہ بڑے دھڑلے سے اسکرین پر لکھا کہ آپؐ کے احترام و محبت میں، اور ساتھ نیچے لکھا کہ یہ ’’ٹیم ریوولیشن پاکستان کی طرف سے ہیک کیا گیا ہے۔ یہ پاکستانی مسلمان ہیکرز کا ایک رد عمل تھا جو چند دن پہلے بی جے پی رہنما نوپور شرما نے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں متنازع بیان دیا اور آپؐ کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچائی۔ سارا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لیے آپؐ کی ناموس اپنی عزت، جان و مال، اولاد اور ہر رشتے سے زیادہ عزیز اور مقدم ہے۔ مسلمان آپؐ کی ناموس کی حفاظت میں اپنی جان دینا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ کئی مثالیں موجود ہیں کہ مسلمانوں نے اس مقصد کی خاطر جان دینا سعادت سمجھا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپؐ کی محبت کے بغیر تو ہمارے ایمان کی تکمیل ہی نہیں۔ سیدنا عمر جیسے پرتقوے صحابی نے آپؐ سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! آپؐ مجھے میرے مال اور ہر رشتے سے زیادہ عزیز ہیں۔ کیا میرا ایمان مکمل ہے؟ لیکن جواب میں آپؐ نے فرمایا: نہیں: بلکہ جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہیں ہو جاتا اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل نہیں۔ تو اسی وقت سیدنا عمرؓ نے آ منا وصدقنا کے مصداق فرمایا: اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں‘‘ تو جواباً سیدنا عمرؓ کو آپؐ سے تکمیل ایمان کی بشارت ملی۔ یہ آپؐ کی اپنی خواہش نہیں تھی بلکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ ’’نبی تو مومنوں کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہے‘‘۔ (الاحزاب: 6)
چند سال پہلے پاکستان کے معروف کالم نویس جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں کسی دوسرے ملک میں ایک یہودی سے ملاقات کا قصہ بیان کیا جو اردن کا رہنے والا تھا، ربی تھا اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اس وقت وہ مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا تھا۔ جب اس سے اس کی ریسرچ کا نتیجہ پوچھا تو وہ آہستہ آواز میں بولا۔ ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے، یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے، اس کی وجہ نبی اکرمؐ کی ذات تھی۔ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کرلیں، آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں، آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا خاندان تباہ کر دیں یہ برداشت کرجائیں بے لیکن آپ جونہی ان کے رسولؐ کا نام غلط لہجے میں لیں گے یہ تڑپ اٹھیں گے اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون، یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے۔ ریسرچ کا حاصل ہے ہے کہ جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر آپ اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا۔
آپؐ کی شان اقدس میں گستاخی کے اس واقعے پر مسلمانوں کا ردعمل اردن کے اس یہودی کی ریسرچ کے مطابق ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ عرب، عجم، مشرق و مغرب، کہاں پہ عوام نے احتجاج نہیں کیا؟۔ بھارت میں بھی بھارتی مسلمانوں نے خوب احتجاج کیا۔ مزید یہ کہ اس احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو بھارتی پولیس نے پکڑ کر مار کٹائی کر رہی ہے۔ ان کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں۔ انہیں ہر ممکنہ سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن وہ لوگ اپنے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مطالبہ ہے کہ گستاخی کرنے والوں کو سزا دی جائے اور معافی مانگی جائے۔ دوسری طرف فاشٹ مودی جو اپنی مسلم دشمنی کی وجہ سے مشہور ہے، وہ معافی مانگنے سے انکار کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی احتجاج ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ ان میں بچے، بوڑھے، جوان، مرد عورت، سب شامل ہیں۔ لاہور کے گیارہ جون بروز ہفتہ ہونے والے عوامی مارچ میں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے کہا۔ ’’صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ نے جو اتنا بڑا رتبہ دیا ہے وہ صرف عشق مصطفی کی وجہ سے ہے۔ ہم نبی مہربان کی شان پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔ حرمت سول ؐ پر جان بھی قربان ہے‘‘۔ انگلینڈ کے مسلمان کھلاڑی معین علی نے کہا ہے۔ ’’بھارت نے اپنے گستاخانہ بیان پر معافی نہ مانگی تو میں دوبارہ کبھی میچ کھیلنے بھارت نہیں جاؤں گا۔ آئی پی ایل کا بھی بائیکاٹ کروں گا اور میں اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی ایسا ہی کرنے کی اپیل کروں گا۔ میں سیدنا محمدؐ سے محبت کرتا ہوں‘‘۔
اس بار تو خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ سوئی ہوئی عرب قوم نے بھی کھل کر احتجاج کیا ہے۔ قطر نے انڈین سفیر کو بلاکر اس گستاخی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ عرب ممالک نے انڈین مصنوعات سے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا۔ مطالبہ معافی مانگنے، ملزم کو سزا دینا اور آئندہ کبھی ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کروانا ہے لیکن مودی جس نے اپنی زندگی مسلم دشمنی میں کھپا دی ہے، کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم ہے۔ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر عرب تیل نہیں دے گا تو وہ تیل روس سے خرید لے گا۔
اس وقت یہ کوئی عام معاملہ نہیں۔ شان رسالت اور ناموس مصطفیؐ کا معاملہ ہے۔ عوام کی طرح مسلم حکمرانوں کو بھی اظہار عشق رسول کا ثبوت دینا پڑے گا۔ انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ اگر چند مسلم ممالک بھی اپنے اپنے سفیر انڈیا سے بلوا لیں اور ان کے سفیر واپس بھیج دیں تو شاید اس ہٹ دھرم مودی کی عقل ٹھکانے آئے۔ امارات اور سعودی عرب انڈیا کی منڈی کا گڑھ ہیں۔ اگر یہ ممالک تجارتی لین دین بند کر دیں تو بھارتی حکومت کی آنکھیں کھل جائیں۔ مودی حکومت نے جو بھارتی اور کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم برپا کر رکھا ہے اب اسے برداشت نہ کیا جائے اور اسے دو ٹوک الفاظ میں روکا جائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان نے کافر کے سامنے کمزوری دکھائی ہے اس نے اسے چٹ کر جانے کی ہی کوشش کی ہے۔ رہی بات ناموس رسالت کی تو اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات ہماری محتاج نہیں۔ اس نے تو اپنے نبیؐ کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلند تر کر دیا ہے۔ وہ یہ کام ہم سے نہیں تو کسی اور سے لے لے گا لیکن ہم محتاج ہیں اپنے پیارے رب کے، عاشق رسول میں اپنا نام لکھوانے کے لیے۔