اظہار رائے پر پابندی

322

وزیراعظم شہباز شریف کو برسر اقتدار آئے ہوئے، اب تقریباً دو ماہ ہونے والے ہیں، انہوں نے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے، بجلی کی قیمتوں میں کمی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، پٹرول ڈیزل کے قیمتوں میں کمی، اشیائے ضرورت کو عوام تک باآسانی رسائی، کے جو وعدے کیے تھے، ان سے وہ ناصرف یکسر منحرف ہوچکے ہیں، اور انہوں نے عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا، پٹرول اور بجلی گیس کے نرخوں میں وہ ہوشربا اضافے کیے ہیں، جس نے ہر غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ امیروں کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ پریشانی سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے تھی، جس کے بڑے بڑے نام پہلے ہی ان کی حمایت میں رطب السان تھے، زبانوں اور قلم سے دن رات عمران خان کی حکومت کے خلاف زہر اگلنے والے، اب یا تو خاموش ہیں، یا پھر حکومت کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔ شہباز شریف نے حکومت میں آنے کے فوراً بعد مخالف پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے، ایک مہم شروع کی تھی، جس میں ان کے حکم پر برقی خطوط ای میلز، بلاگز اور سماجی رابطے (Social Media)کے ذریعے حکومت مخالف جذبات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) نے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مہم کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ کارروائی ریاست کے خلاف منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کی جارہی ہے۔ لیکن اپنے مخالفین کی زباں بندی کے لیے یہی دلیل ہر حکومت پیش کرتی چلی آئی ہے۔ اس مہم میں بھی یہی دیکھنے میں آیا۔
میڈیا میں عکس وہی نظر آتا ہے، جو آپ کا اصل چہرہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی رہتی ہے کہ حکمران آئینہ دیکھ کر اپنے چہرے کے داغ ٹھیک کر لیں، اور شیشہ توڑ کر وجیہ بننے کی کوشش نہ کریں، ایسی خواہش خلل دماغ کے سوا کچھ نہیں۔ یہی مشورہ اداروں کے لیے بھی ہے۔ جنہیں اب تک یہ سبق یاد نہیں ہوسکا کہ: ’’آ زادی اظہار رائے انسان کا بنیادی حق ہے‘‘ اور اس سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے، اور نہ کسی کی زبان بندی کی جاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر ارسلان خالد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بہت زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ زوروں پر ہے۔
سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی چل رہا ہے، وہ ہمارے ملک، فوج، ریاستی اداروں، ملک کے نظریاتی تشخص کے لیے ایک نہایت سنگین ہے، باجوہ کے نام سے سوشل میڈیا پر جو مہم چل رہی ہے، اور جس میں غداری کا سرٹیفکیٹ دیا جارہا ہے، لیکن ان میں بہت سے ’’اپنے‘‘ ہیں۔ جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں، اسی لیے انہیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سائبر کرائم کا قانون موجود ہونے کے باوجود اس پر کتنا عمل ہورہا ہے، اس کا اندازہ آپ ٹویٹر پر گزشتہ دو ماہ سے جاری رہنے والے ٹرینڈ کو دیکھ کر کرسکتے ہیں۔ کریک ڈاؤن کا فیصلہ کرنے والوں نے ’’پنڈی کے دلے‘‘ نام سے ٹرینڈ چلانے والوں کو تو کچھ نہ کہا، نہ ہی اس شخص کو جو لندن سے بیٹھ کر جنرل باجوہ جنرل باجوہ فیض حمید فیض حمید کی گردان سناتا تھا اور جس کی ویڈیوز آج بھی چل رہی ہیں۔ آپ نے کچھ نہ کہا، بلکہ ان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ جلسے میں ’’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کے نعرے لگوانے والی خاتون بھی آج کل پس پردہ اور اعلانیہ سابق فوجیوں کی مراعات ختم کرنے کے احکامات صادر کررہی ہیں، انہیں ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ جس شخص کی عدالت پیشی پر نعرے لگے تھے ’’باجوہ کتا ہائے ہائے‘‘ وہ تو آج اقتدار کے سنگھاسن پر تشریف فرما ہیں۔ کل جو شخص اسلام آباد میں کھڑے ہو کر صحافیوں کے درمیان آئی ایس آئی کو گالیاں دے رہا تھا۔ وہ تو اب آپ کے پسندیدہ ہیں۔ کل جس سیاست دان نے یہ دھمکی دی تھی کہ ’’ہم جی ایچ کیو کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ وہ اب آپ کے اتحادی ہیں۔ آپ کی پالیسی وقت اور ضرورت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، ملک، قوم، عوام سے زیادہ آپ کو اپنے مفادات عزیز ہیں، اس ملک میں حقیقی جمہوریت اگر کسی پارٹی میں ہے تو وہ واحد سیاسی جماعت، جماعت اسلامی ہے۔ جو محب وطن ہے، اور اپنے سینے پر قربانیوں کے نشان سجائے ہوئے ہے۔ جماعت اسلامی آج بھی آئین اور حق کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ اپنا جدا موقف رکھتی ہے، جماعت اسلامی نہ حکومت کی طرفدار ہے نہ اپوزیشن کی، جماعت اسلامی آئین پاکستان کی طرفدار ہے اور عوام کی آواز ہے، یہ جماعت ہی ہے، جس کا واحد سینیٹر مشتاق احمد خان ہی ہے، جو ایوان بالا میں حق کا اظہار کررہا ہے، جو اس بات کو بار بار کہتا ہے کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ آئین محفوظ ہو، اس میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اس میں اسلامی شقیں موجود ہیں، یہ آئین عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ضمانت ہے، اس کی حفاظت کرنا ایمان کا تقاضا ہے‘‘، جو ملک سے سود کے خاتمے اور اشرافیہ کی لوٹ مار کے خلاف بول رہا ہے، جماعت اسلامی کی گدڑی میں سراج الحق جیسے درویش، مولانا ہدایت اللہ جیسا سرفروش، عبدالرشید جیسا بے باک لیڈر، اور حافظ نعیم الرحمن جیسا نڈر اور بے خوف لیڈر موجود ہے۔ اس لیے اس جماعت کا راستہ مت روکیے، ماضی میں آپ نے جو فیصلے کیے ان سے ملک اور قوم کو بہت نقصان پہنچا ہے، حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ باٹنا بند کیجیے، حقیقی قیادت کا راستہ مت روکیے، صرف سیاسی انتقام کے لیے اپنے مخالفین کو اٹھانے کی روش کو ختم کیجیے۔ تاکہ یہ ملک ان مسائل اور مصیبتوں سے نکل کر خوشحالی کی طرف بڑھے۔