حق کی شہادت

535

ووٹ کو عزت دینے والوں کی بے توقیری سے حق دو مہم کے علمبرداروں تک کا قصہ اس مختصر سے وقت کا حصہ بن گیا ہے اس وقت پاکستان کی سیاست کے نقشے پر دو قسم کے گروپوں میں عوام تقسیم ہو چکے ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کی باتیں کرنے والوں کے گروہِ کثیر میں اضافہ ہوا، نوٹ کے بل پر بکتے ووٹ کسی کو عزت کیا دیتے وہ تو جوتوں میں بیٹھ کر کبھی ’’چیری بلاسم‘‘ کا ذومعنی قافیہ بن گئے اور ’’میرا قصور کیا تھا‘‘، تو کبھی ’’بیرونی طاقت‘‘ کا بھیانک خواب بن کر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا نعرہ بن گیا اور پھر ویڈیوز اور آڈیوز کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے کہ جس میں پلاٹ، پرمٹ، ویزوں کے وعدوں اور تین اور پانچ قیراط کے ہیروں پر ووٹ کی عزت کو بٹّا لگتے دیکھ رہے ہیں، یہ تو ملکی سیاست کی اخلاقیات کا جنازہ ہے جو دھوم سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے ہم اسے محلاتی، اور خاندانی سیاست میں جانچیں تو وہاں بھی ’’رشتے کو عزت دو‘‘ جیسے نعرے ہر رشتے کے نام سے پہلے لگا کر گھروں میں اک ہنگام محشر بپا کیے ہوئے ہیں اس ذیل میں چند خاندانی نعروں پر غور فرمائیں۔
بیٹی کو عزت دو۔ ماں کو عزت دو۔ بیوی کو عزت دو۔ ساس کو عزت دو۔ یعنی ساری عزتیں ایک مستور، محجور و مجبور عورت کے نام یہاں تک کہ: ’’تکریم نسواں‘‘ کے مقابل بھی کہیں بیچارہ مرد نہیں وہ کہیں ہے تو ’’ہمت مرداں‘‘ کے نعرے میں خدا کی مدد کی نوید لے کر آتا ہے ہم اس نسوانیت کی تکریم کے نعروں سے خاندانی سیاست میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں کہ جس کو تکریم خود اس کے پیدا کرنے والے نے دے کر بھیجا جسے رحمت اور جنت کا وارث بنا کر دنیا کی ساری رعنائی اور راحت اس کے وجود میں پنہاں کر دی مگر اس حیا و وفا کے پیکر عزت و عظمت کے مینار، خودی خودداری، سادگی وپرکاری کے پیکر کو نجانے کس طرح اور کس درجہ کی عزت درکار ہے کہ خاندانی سیاست میں مظلوم بہو، ظالم ساس، سازشی پھپھو، مسکین خالہ، لالچی سالی، عیار چاچی اور مکار مامی کے بھیس میں ’’عورت کو عزت دو‘‘۔ کی مہم چلا کر حقیقت میں صنف نازک کے محترم ومکرم کردار کو منفی ثابت کر رہا ہے شہادت علی الناس کے ضمن میں اس کی ساری شہادتیں بودی اور کمزور ثابت ہو رہی ہیں مگر نعرہ وہیں پر ہے ’’عزت دو‘‘۔ عزت و وقار کوئی دینے دلانے کی شے نہیں کہ آپ نے دے دی ہم نے لے لی یہ وہ منصب ہے جو پیغمبری کے درجے کی طرح آپ کو تلاش کر کے خود آپ کے پاس پہنچ جاتا ہے یہ وہ سرحد ہے کہ جس کے پار سے ندا آتی ہے۔ ’’ابو بکرؓ سے پوچھو کہ کیا وہ اپنے رب سے راضی ہے؟‘‘
عزت تو وہ خوشبو ہوتی ہے کہ ہرن کے نافے سے جدا نہیں ہو سکتی وہ صندل کا پودا ہوتی ہے کہ جو زندہ رہے تو چھاؤں مر جائے تو خوشبو، یہ وہ امرت دھارا ہے کہ جسے پینے والا مر کر بھی نہیں مرتا۔ عزت سحر سے کچھ پہلے کا وہ اچھوتا خواب ہوتی ہے کہ جو شہادت کے منصب پر فائز ہونے والے کی آنکھوں کے پردے پر نظر آ جائے تو بتا جاتی ہے کہ ووٹ اور رشتے کو اگر عزت دینی ہے تو اس کے خالق کے نظام کو نافذ کرنے کی جدو جہد میں حصہ ڈال دو پھر ’’تم جیتو یا ہارو اللہ اور اس کے بندوں کو تم سے پیار ہے‘‘ کے نعرے نہ لگے تو کہنا۔
کسی رشتے اور شے کی عزت اس کے درست اور بروقت استعمال میں ہے بلدیاتی انتخابات کے آنے سے پہلے عزت و عظمت کے مینار پر کھڑا ہونا ہے تو ’’امانتیں اہل امانت کے سپرد کیجیے‘‘ جگہ سے بے جگہ، طریقہ سے بے طریقہ شے، یا رشتہ کبھی بھی قابلِ تکریم نہیں ہوا کرتا آئیں ووٹ اور رشتے سب کو عزت دیجیے اور کہہ دیجیے کہ: ’’کام کرنے اور کام نہ کرنے والے برابر نہیں ہوا کرتے‘‘۔
ہم اسی کو عزت دیں گے اسی کو ووٹ دیں گے جو کام کرے، درست کرے، استوار کرے، ہموار کرے، ترتیب سے کرے، تعمیر کرے، فساد کرنے والے، تخریب کار اشیاء، رشتوں اور کاموں کو جگہ سے بے جگہ کرنے والے کبھی بھی باتوقیر اور لائق عزت نہیں ہوا کرتے شہادت چاہتے ہیں تو شہادت دینی ہو گی ستر، اسی، نوے سالہ زندگی کے بعد مر تو سب کو جانا ہے زندہ وجاوید قابلِ تکریم وعزت وہی رہے گا جو ’’شہادت‘‘ یعنی حق کی گواہی پر جان دے گا ووٹ اور رشتے دونوں کا حق ادا کرنے والا بنے گا تو آ رہے ہیں ناں بلدیاتی انتخابات میں ’’حق‘‘ کی گواہی دے کر شہادت کی عزت پانے کے لیے؟؟ تاکہ پھر جان جائے تو وہ بھی عزت سے، مان رہ جائے تو وہ بھی عزت سے کیوں کہ ہم حق داروں کو حق دلوانے کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں ہمارا نعرہ
’’حق دو کراچی کو‘‘
اصل میں ’’حق‘‘ کی عزت کا دعویٰ ہے۔