کس راہ پر چل رہے ہیں؟

662

۔40 کھرب روپے خسارے کا بجٹ آگیا جو آنا ہی تھا۔ ملک کی معیشت کا یہ نوحہ تھا جو پڑھ کر سنایا گیا یہ ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے پاکستان جو ترقی کی راہیں تیزی سے طے کررہا تھا 1962ء تک پاکستان غیر ملکی قرضے دینے والا ملک تھا۔ اس کی ترقی نے چین کے وزیراعظم چوائن لائی کی آنکھوں کو دورہ ٔ پاکستان کے موقع پر خیرہ کردیا۔ اس وقت سوچ حکمرانوں کو اپنی نہیں ملک کی تھی۔ لوٹ کھسوٹ کے پیمانے دریافت کرنے میں حکمران مصروف نہ ہوئے تھے اور بددیانتی نے جڑ نہیں پکڑی تھی، پھر ایک سوچ نے جنم لیا معروف صحافی لکھتے ہیں (نصرت مرزا) ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو کہنے لگیں مرزا صاحب ہمیں مال بنانا نہیں آتا ہے۔ میاں نواز شریف کا اکائونٹنٹ جس طرح مال بناتا ہے وہ طریقہ ہمیں نہیں آتا اور آپ لوگ ہمیں پکڑ لیتے ہیں جب کہ وہ آپ کے ریڈار پر نہیں آتے کیوں کہ آپ اسحاق ڈار نظام سے ناآشنا ہیں، پھر ایک دفعہ کہنے لگیں کہ آصف یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں کچھ لوگ حکومت نہیں کرنے دیتے اس لیے بہتر ہے کہ مال بنائو اور غیر ملک میں امیروں کی طرح رہو۔ میں نے پوچھا بی بی آپ نے کیا آصف زرداری کی بات مان لی۔ تو چپ رہیں جس کے میں نے یہ معنیٰ پہنائے کہ وہ زرداری ڈاکٹرائن پر ایمان لے آئیں۔ نصرت مرزا جو باخبر صحافیوں کے حلقے میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ میرے بزرگ دوست معروف صحافی مجید نظامی اس کے راوی تھے کہ جب نواز شریف کو پنجاب کا وزیرخزانہ بنایا گیا تو میں نے (مجید نظامی) نے ان کے والد (میاں شریف) سے کہا کہ اب سیاست کے ذریعے تجارت نہیں ہوگی تو انہوں نے کہا کہ اب اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ چناں چہ اس اصول کے تحت انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
آصف علی زرداری جو مال اور مایا کا خوب استعمال جانتے ہیں اور اس فتنہ سے سیاست کو سیراب کرنے کے ماہر ہیں اور اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ انجمن طلبہ اسلام جو جمعیت علما اسلام کی ذیلی تنظیم ہے اس کے سابق صدر میڈیا پر بتارہے کہ مولانا فضل الرحمن کو آصف زرداری نے اسلام آباد کے پوش علاقہ میں 4 پلاٹ مرحمت کیے جو خیر سے 56 کروڑ روپے میں انہوں نے فروخت کرکے رقم کھری کرلی۔ یہ سوچ پی ڈی ایم کے مجوزہ تین بڑے رہنمائوں کی نہیں پی ٹی آئی نے بھی حکومت کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا تھا ان کی پارٹی کے علیم خان چہک رہے ہیں، عمران خان کے دورِ حکومت میں ڈی سی کی پوسٹ ڈھائی کروڑ میں فروخت ہوتی تھی۔ یہ رقم خاتون اول کی سہیلی کو بطور مٹھائی جاتی تھی اس مال کمائو اور بھاگ جائو نے ہی ملک کا بیڑہ غرق نہیں کیا بلکہ سیدنا عمرؓ کے دور حکمرانی کے وقت سیدنا علیؓ نے تاریخی جملہ جو آپ زر سے لکھنے کے قابل ہے کیا آپ نے فرمایا امیرالمومنین جب آپ بددیانتی سے بچتے ہیں تو رعایا بھی بچتی ہے۔
حکمران لوٹ میں مصروف ہوئے تو لٹیروں کی فوج بھی ان کے ہمراہ ہوگئی اور سب اس کے مال اسباب پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ کے میدان میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے لگے۔ کچھ کو مال کی ہوس نے ایمانی حمیت سے بیگانہ کردیا ہوگا اور امریکا کے ہاتھوں یقینا کھیلنے لگے ہوں گے جیسا کہ سوویت یونین روس کی تباہی کے وقت ان کا تعاقب کرنے لگی۔ یہاں تک کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کا وزیرداخلہ اپنا انعام لے کر امریکا میں اپنے محل میں جابسا تو روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایک سابقہ ایجنٹ نے تجسس کی خاطر اس سے ملاقات کی تو سوویت یونین کے سابق وزیرداخلہ نے اس ایجنٹ کو بتایا کہ آپ لوگ میرے ملاقاتیوں پر نظر رکھتے تھے میں نے صرف یہ کام کیا کہ نااہل لوگوں کو اہم عہدے پر فائز کردیا یوں سارا کام خودبخود ہوگیا۔ دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ لوٹ کھسوٹ کی سوچ اور نااہل کی بھرتی کا یہ کھیل پاکستان میں بھی جاری ہے اس لیے سابق وزیراعظم ملک کے 3 ٹکڑے ہونے کی خبر دے رہے ہیں اللہ خیر کرے۔ ہوش کے ناخن حکمراں لیں ہم اور ملک کس راہ پر چل رہا ہے۔