ان دنوں وطن عزیز میں جوان، بوڑھے، مرد وعورت سب تیزی پکڑتی مہنگائی کی وجہ سے بلبلا اٹھے ہیں۔ خاص کر جب ایک ہفتے میں پٹرول کی قیمت 30، 30 روپے کے اضافہ کے ساتھ 60 روپے فی لیٹر بڑھی اور اب پٹرول 210 روپے لیٹر ہو چکا ہے۔ پٹرول کی قیمت کی حیثیت باقی تمام اشیاء کی قیمتوں میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پٹرول کی قیمت کے اضافے کے ساتھ ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے۔ تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اینٹ، سمنٹ، سریہ، بجری، ریت، ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بار تو موسمی سبزی بھی سستی ملنا نایاب ہے۔ کوئی بھی سبزی سو روپے کلو سے کم نہیں اور کوکنگ آئل 500 روپے کلو سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ مصالحہ جات بھی خوب مہنگے اور دالیں گوشت کے بھاؤ میں مل رہی ہیں۔ جبکہ گوشت کھانا تو اب درمیانے طبقے کے لیے بھی خواب و خیال بن چکا ہے۔ یہ لوگ بیچارے یہی سوچتے ہیں کہ آج دال پکائیں یا سبزی، کون سی چیز کم قیمت میں پڑے گی؟۔ بچوں کو بہلانے کے لیے ٹافی، نمکو، بسکٹ جیسی ارزاں چیزیں بھی اب قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں۔ پرچون سے بنیادی ضروریات کی چیزیں خریدنا ہوں یا کپڑے کی دکان سے کپڑا۔ عوام کو دہرا ٹیکس دینا پڑ رہا ہے۔ ایک ٹیکس ڈبے پر لکھی قیمت کے مطابق اور دوسرا ٹیکس اسٹورز کی اپنی من مرضی کا لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ سیاستدان ہوں یا تاجر سب قوم کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پٹرول کی قیمت میں خوب اضافہ کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمت میں بھی اضافے کا بم عوام کے سروں پر گرایا گیا۔ جون سے ناصرف بجلی کا نرخ بڑھے گا بلکہ یونٹس کی حد بھی کم کرنے کے لیے غور و فکر کی جارہی ہے۔ یعنی 300 یونٹ تجاوز کرنے پر جو بل دوگنا ہو جاتا تھا اب 230 یونٹ پر ڈبل ہو جائے گا۔ لوگوں کے لیے ضروریات زندگی تک رسائی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچیے جو بندہ ماہانہ 15 سے 20 ہزار کما رہا ہے اور ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کرائے کے مکانوں میں بھی رہتی ہے۔ ان کے کرایہ، بل کی مد میں ہی یہ تنخواہ بمشکل پوری ہوتی ہو گی۔ ان کے بیوی اور بچے بھی معیشت میں ان کا ساتھ دینے میں مجبور ہوتے ہیں۔ یہ سسک سسک کر زندگی گزارنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے روتے بچے کو بہلانے کے لیے ایک ٹافی بھی خریدتے ہیں تو ٹیکس دے کر خریدتے ہیں۔ کھیتوں میں، فیکٹریوں میں، سڑکوں پر، منڈیوں میں پسینے یہی لوگ بہا رہے ہیں۔ ملک انہی کے دم سے رواں دواں ہے لیکن اس کے بدلے انہیں کیا مل رہا ہے؟ دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر یہ نہیں کھا سکتے۔ بنیادی ضروریات زندگی کے لیے بھی ترسنا ان کا مقدر ہے۔ اپنے چھوٹے سے گھر کا خواب بھی ان کی آنکھوں کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ تعلیم ان کے بچوں کی پہنچ سے دور ہے۔ ان کے بچوں کا اچھے اسکولوں میں پڑھنا ممکن ہی نہیں۔ اور وہ بچے دس بارہ برس کی عمر میں ہی کمانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ تو مختصر حالات ہیں پاکستان کے بیش تر عوام کے اور اب ذرا ایک نظر اس مقروض ملک کی اشرافیہ پر بھی ڈالتے ہیں۔ جن میں ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، سیاسی و حکومتی شخصیات، فوجی آفیسرز، پولیس آفیسرز، سب آتے ہیں۔ نیم دیوالیہ ملک کی اسی غریب عوام کے پیسہ پر ان کی شاہ خرچیاں عروج پر ہیں۔ ان کے لیے سو سو کنال کے گھر اور ان میں ملازموں کی فوج کا خرچہ سرکاری خزانہ برداشت کرتا ہے۔ عوام پٹرول کی بوند بوند کو ترسیں، بیس ہزار ماہانہ کمانے والا بھی اپنی جیب سے نوکری پر آنے جانے کا خرچہ برداشت کرے لیکن ان کی پروٹوکول والی گاڑیوں سمیت ذاتی گاڑیوں کو بھی ہزاروں لیٹر تیل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کو لاکھوں تنخواہ لینے کے باوجود ملازم اور بجلی کی سہولت مفت مہیا کی جاتی ہے۔ گرم دھوپ میں جھلسنے والے عوام کے حق پر ڈاکا مار کر ان ڈکٹیٹرز کو دو دو ائرکنڈیشنروں کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس غریب ملک کے خزانے پر عیاشی کرنے میں وہ تمام ادارے اور عہدے آتے ہیں جو صرف دس فی صد اپنی محنت کا اور نوے فی صد اپنے عہدے کی ویلیو کا کھاتے ہیں۔ اس میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اٹھار سے 22 گریڈ تک کے سرکاری افسر شامل ہیں۔ تنخواہ بھی لاکھوں میں اور مراعات بھی لاکھوں میں بلکہ یہ مگرمچھ ریٹائرمنٹ کے بعد اور بھی مہنگے پڑتے ہیں۔ ان کے تو رشتہ دار بھی قومی خزانے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں اور سرکاری سہولتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر اشرافیہ کو دی گئی مراعات نصف کر دی جائیں تو ملکی خزانے کو ماہانہ 23 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ اگر اس کے سالانہ کا حساب لگائیں تو سوچیں ملک کو کس قدر فائدہ ہو گا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ ہوتے ہوئے بھی اپنی تنخواہ ایک مزدور کی اجرت جتنی مقرر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اتنی تنخواہ میں ایک مزدور کا گھر چل سکتا ہے تو میرا کیوں نہیں جب مجھے محسوس ہوگا کہ میرا اتنے میں گزارہ نہیں ہوسکتا تو میں پہلے مزدور کی اجرت بڑھاؤں گا پھر اپنی۔ پاکستان جیسے اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے لیے حکمران کا ماڈل بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس کے لیے عوام کو ایک تحریک چلا کر اشرافیہ کو مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی بے جا مراعات واپس کریں۔ ہم ان کے زر خرید غلام تو نہیں۔ جب پیسہ ہمارا ہے تو حساب بھی ہم لیں گے۔ کیونکہ ایک اسلامی ریاست کی یہی شان ہے کہ سیدنا عمر جیسے متقی اور دنیا کے بہترین انسان سے بھی کھڑے ہو کر ایک چادر کا حساب لے لیا گیا۔ اب عوام اپنی حالت خود بدلیں اور ملک پر مسلط لٹیروں سے اپنا حق چھینیں۔