سرمایہ کاروں میں بڑھتا ہوا خوف اور حل

592

کورونا، یوکرین اور روس جنگ، سیاسی بحران، روپے کی قیمت میں کمی، ایکسپورٹ میں کمی، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور پیداواری اخراجات میں اضافہ یہ وجوہات ہیں جن کے باعث پاکستان سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی دیکھی جارہی ہے اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی پائی گئی۔ اپنی حالیہ میں رپورٹ میں ورلڈ بینک نے پاکستان کی معیشت کی ساختی کمزوریوں کو اجاگر کیا ہے جس میں کم سرمایہ کاری، کم برآمدات، اور کم پیداواری ترقی کا چکر شامل ہے۔ مزید، گھریلو مانگ کے بلند دباؤ اور اشیاء کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ملک میں دوہرے ہندسے کی افراط زر کا باعث بنے گا۔
مزید برآں، مستقبل قریب میں پاکستان میں ترقی کی رفتار میں تیزی آنے کی توقع نہیں ہے کیونکہ درآمدی بل میں تیزی سے پاکستانی روپے پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ حکومت پاکستان، جس نے بینکوں سے اعلیٰ شرح سود پر قرضہ لیا ہے، اپنے کیش بیلنس کے لیے برائے نام سود کماتا ہے، جس کی وجہ سے خزانہ بھاری مقروض ہونے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے لیے لیکویڈیٹی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری بھی بچتوں سے ہوتی ہے۔ ملک میں گھریلو سرمایہ کاری کی صلاحیت اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ 50 فی صد سے بھی کم گھریلو بچتیں مالیاتی شعبے میں شامل ہیں اور باقی رئیل اسٹیٹ میں استعمال ہوتی ہیں، غیر رسمی ذرائع سے مداخلت کی جاتی ہیں، یا براہ راست حکومت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز ریٹنگز گلوبل فنانشل لٹریسی سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 26 فی صد بالغ افراد مالی طور پر خواندہ ہیں۔ اس طرح، پاکستان میں محدود مالی خواندگی سرمایہ کاروں کے لیے تشویشناک ہے کیونکہ اس نے ملک میں غیر رسمی چیلنج کو بڑھا دیا ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی کی بڑی وجہ شرح سود میں اضافہ ہے جو 13.75فی صد تک پہنچ گیا ہے ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے سود اہم کردار ادا کرتا ہے سرمایہ کاروں کے لیے آسان ہوتا ہے کسی بھی بینک میں سرمایہ جمع کروا دینا اور سود وصول کرتے رہنا جس سے کاروبار سے پیسا نکل کو بینکوں میں چلا جاتا ہے اور پیسے کی گردش کم ہو جاتی ہے بیروزگاری بھی جنم لیتی ہے۔ جہاں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے رکے ہوئے بیل آؤٹ پیکیج کو ایک سال تک بڑھانے اور قرض کے حجم میں 2 بلین امریکی ڈالر تک اضافے پر رضامندی ظاہر کی ہے، وہیں فنڈ کی سخت شرائط کو پورا کرنا پاکستان کے لیے ایک مشکل کام ثابت ہوگا۔ پاکستان کی نئی حکومت چونکہ معیشت صنعتی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں ناکام رہی ہے، اس لیے اس کے بنیادی ڈھانچے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو پاکستان کی معیشت میں سرمایہ کاری کی آمد کا مطالبہ کرتا ہے۔ تاہم، میڈیا آؤٹ لیٹ کے مطابق، معیشت کے مسائل جو ساختی اور گہری جڑیں ہیں، حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہیں۔
پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکالنے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدام کی ضرورت ہے جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا 1) سیاسی بحران کا خاتمہ جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اختلافات کے باوجود معیشت کی بہتری کے لیے اکٹھا ہونا ہوگا۔ اختلافات اتنی شدت اختیار کر گئے ہیں جو پاکستان کی شرح
نمو کو متاثر کررہے ہیں 2) فوری طور پر سود سے خاتمہ جس نے پاکستان کے معاشی بحران میں اہم کردار ادا کیا ہے آج پاکستان 53 ٹریلین روپے کا مقروض ہے، جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 90فی صد تک پہنچ گئی ہے، مزید بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی مشکل شرائط کا سامنا ہے جس سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ 3) چھوٹے کاروباری اداروں اور فیکٹریوں کو بااختیار بنانا پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی معیشت تقریباً 3.3 ملین چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر مشتمل ہے۔ ان میں سروس فراہم کرنے والے، مینوفیکچرنگ یونٹس شامل ہو سکتے ہیں۔ ایس ایم ایز پاکستان کی جی ڈی پی کا 30فی صد اور تقریباً 25فی صد برآمدات پر مشتمل ہیں۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ایس ایم ایز کو بااختیار بنائیں اور انہیں ان کی حقیقی صلاحیت تک پہنچنے کی اجازت دیں۔ قرضوں پر صفر شرح سود، مشینری کی خریداری/درآمد کے لیے مہارت کی تربیت/ ترقی کے پروگرام ایس ایم ایز کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک معقول نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ 4) پاکستان میں فوری طور پر غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرتے ہوئے وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر میں سادگی اختیار کرنی ہوگی۔ 5) پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے۔ اگر ایف بی آر، کسٹم، پی آر اے کے افسران بالا اور پارلیمنٹیرینز کرپشن چھوڑ دیں تو پاکستان کا سالانہ ریوینیو 300فی صد بڑھ جائے گا جس سے غربت ختم ہو گی اور قرض بھی ادا ہو جائے گا۔ 6) معاشی ترقی کے لیے اشیاء پیداوار کا
سستا ہونا ضروری ہے تاکہ عالمی منڈی میں فروخت ہوسکے اس کے لیے ضروری ہے بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوں، اس کا حل پاکستان میں ہنگامہ بنیادوں پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر مکمل ہو تاکہ تھرمل پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار کا استعمال کم ہو اور بجلی سستی، کم پیداوار اشیاء سے ہماری برآمدات میں اضافہ ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔ 7) پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس شعبے کو توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 79.6ملین ایکڑ ہے، جس میں سے 23.7ملین ایکڑ، زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فی صد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کار پڑا ہے، جس کی اصل وجہ پانی کی فراہمی کا نہ ہونا ہے۔ اور اس شعبے سے برآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اچھا بیج، کھاد کی فراہمی، کسانوں کو فصل کی بہتری کے لیے مشورے فراہم کرنا، نئے نئے طریقے سے متعارف کروانا جیسے آسٹریلیا، امریکا اور ایسے ممالک میں رائج ہیں جہاں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے 03 سو فی صد زیادہ ہوتی ہے ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان زرعی شعبے کا نیٹ ایکسپورٹر تھا یعنی درآمد سے زیادہ برآمد کیا کرتا تھا لیکن ملک آج اس شعبے میں مجموعی طور ہمیں ساڑھے تین ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ 8) ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے ٹیکس فری زونز بنانے کی ضرورت ہے جہاں سرمایہ کاروں کو آسانی سے اداروں سے منظوری کے لیے ڈیسک بنائے جائیں جہاں بغیر کسی رشوت کے کام ہوں۔ اور ان زونز میں 10 سال کے لیے ٹیکس فری ہونا چاہیے، بجلی گیس کی فراہمی کے ساتھ کم قیمتوں پر فراہمی ہونی چاہیے۔ اسٹاک مارکیٹ کے لیے ایمنسٹی اسکیم جاری ہونی چاہیے یہ وہ اقدامات ہیں جس سے ملکی اور بیرونی سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہوگا۔ معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہوگی۔