ہر دو کے بیچ میں تیسرا رب العالمین ہمہ وقت اور ہر جگہ موجود ہوتا ہے یہ الگ بات کہ: ’’کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘ کے جملے سے چوکنے ہو جانے والے بھی ،معرفت کی معراج نہ ہونے کے باعث اسے محسوس نہیں کر پاتے، کسی کے محسوس کرنے اور نہ کرنے سے اللہ رب العزت کے ہونے کا کوئی سمبندھ نہیں وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا وہ تب بھی رہے گا۔ جب سورج کو مشرق کے بجائے اُسی کے حکم پر مغرب سے نکلنا ہوگا اور وہ تب بھی رہے گا کہ جب پل صراط سے کٹ کٹ کر جہنمی جہنم کی گہرائیوں میں گرتے ہوئے دہائیاں دے رہے ہوں گے مگر اب اور تب میں فرق اس کے رحیم اور قہار ہونے کے مابین کا ہے جسے آج آنسوؤں اور ندامت کے بحر بے کنار سے طے کیا جاسکتا ہے۔
اپنے اور اپنے خالق کے درمیان تعلق میں جو کوئی بھی تیسرا کسی اور کو جانے یہی شرک ہے جس کی معافی بھی نہیں اور جس کے لیے معافی کی دعا تک حرام ہے مگر آج نجانے کس ڈگر پر رواں دل مسلم مستقل شرک اور مشرکین کی درستی کے بجائے ان کی حالت شرک ہی میں موت پر بھی بڑی ڈھٹائی سے ان کے لیے رب العالمین سے رحمت، مغفرت اور جنت طلب کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اس بابت رب العالمین کے احکامات واضح ہیں اسی طرح جیسے رب العالمین کی ذات وصفات میں دو کا تصور محال ہے بالکل اسی طرح اس رب العزت کے لیے قائم کردہ ریاست جو خالص اسی خالق ومالک کے دیے ہوئے نظام کے تحت چلانے کے وعدے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر ابھری اس خالص نظریاتی ریاست کے خلاف کچھ کہنا، کرنا، بولنا سب کچھ شرک کے زمرے میں آتا ہے ہر چند کہ لاکھ کہا جائے کہ یہاں ’’نظریہ‘‘ نافذ تو نہیں ہے بجا مگر ’’نظریے‘‘ کے لیے حصول ہوا یہ کافی ہے اس ریاست کی پاکبازی اور پاکیزگی کے لیے اب اہل ایمان کا کام اس ریاست میں حکم رب العالمین کا نفاذ ہے ناکہ اسے توڑنے کی سازش اور باتیں کرنا وہ بھی محض اس لیے کہ اس ریاست کے دنیاوی حکمرانی کے دعوے سے بھی آپ کو نیچے پٹخ دیا گیا اور بدلے میں اس رحمانی نظریاتی ریاست کے ٹکڑوں وہ بھی بطور خاص ’’تین‘‘ ٹکڑوں میں بٹنے کی دھمکی دے اور ہم بیٹھے ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کریں بدہضمی ہونا تو دور کی بات ہمارے پیٹوں میں فکر و اشتعال سے بل بھی نہ پڑیں نہ ہی بدن میں موت کی یاد میں آنے والی پھریری اُٹھے، بس بے حسی کی چادر ہو اور ہم ہوں تو ایسے میں ضرورت ہے اپنے ایمان ودین کی آبیاری کی اس کے تجدید کی اس کے عزم نو کی، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان مشرکین کے مثلثی ایلومیناتی ٹولے کی ہرزہ سرائیوں کی بیخ کنی نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں ہم بھی لکیر کے اس طرف کھڑے نظر آئیں جہاں یہ مشرکین کا ٹولہ کھڑا ہے۔
شدت سے ضرورت ہے اس وقت ہر اہل ایمان اپنے ایمان کو ’’دل میں برا جاننے‘‘ والے آخری اور کمزور ترین درجے پر فائز رکھنے کے بجائے ’’کہہ کر، لکھ کر‘‘ کم از کم زبان سے کہنے والے دوسرے درجے ہی میں آ جائیں کہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم ’’عمل کے ذریعے اڑا کر رکھ دینے والے‘‘ پہلے درجے کے ’’عہدوں‘‘ پر فائز نہیں ہیں ہاں جو ان ’’عہدوں‘‘ پر فائز ہیں ان سے استدعا کرتے ہیں کہ ’’لاڈلے‘‘ کی غلطیوں پر محض پٹخ کر باہر نکالنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ باہر نکلنے کے بعد چونکہ وہ ’’لاڈلہ‘‘ زیادہ زہریلا ہو گیا ہے اس سے قبل کہ اس کا زہر قوم وملت کی جڑوں میں سرائیت کر جائے اس کے پھن کو کچل دیجیے کہ آپ ہی کی زیر نگرانی اسے ان پھنوں میں زہر ڈال کر سرزمین کو نیلا کرنے کے ہنر سے آشنا کیا گیا ہے اب آپ ہی اس ناگ کو کچل کر ارض پاکستان کے پرچم کے سفید حصے کو داغ دار ہونے سے بچا لیں۔
آئیں جس میں جتنی طاقت ہے اپنے ایمان کو بچالے اپنا حصہ ڈالیں کہیں، بولیں، لکھیں، کریں ایسا نہ ہو کہ خالق سے کیے اس وعدے پر شرمندہ ہونا پڑے جس میں ہم سے بڑے مان سے اس پیدا کرنے والے نے پوچھا تھا کہ: ’’کیا میں تمہارا رب نہیں؟‘‘
سب بڑے مان سے کہہ کر آئے ہیں کہ: ’’کیوں نہیں!!! آپ ہی ہمارے رب ہیں‘‘۔