اگر کوئی تحریر اور اس کے لکھنے والا ساٹھ باسٹھ سال تک اپنے قارئین کے ذہن میں زندہ ہو، تو اسے زندہ تحریر کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، محمود فاروقی اور محراب منبر دونوں ایسے ہی نام ہیں، جو چھے دہائی گزرنے کے باوجود اپنے قاری کو سحر میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، محمود فاروقی کے یہ کالم ساٹھ کی دہائی میں روزنامہ حریت میں بلا ناغہ شائع ہوتے رہے۔ یہ کالم اپنے مخصوص طرز تحریر، اپنے منفرداسلوب، ندرت خیال، تحقیق کی بنا پر دل اور ذہن پر نقش ہوجاتے اور ہم جیسوں نے کبھی کبھار پڑھا تو آج تک صاحب تحریر اور تحریر کی چاشنی کو نہیں بھولے۔
کبھی تحقیق، تحریر، ادب، شاعری، خیال ہماری میراث تھی، لیکن آج ہم نے اس میراث سے جان چھڑالی ہے، ہم علم، کتاب، تحقیق، پڑھنے سے دور ہوگئے۔ دنیا کے بہترین معلم اخلاق اور تعلیم و تربیت کرنے والے ہمارے پیارے رسولؐ نے سب سے پہلے ایسے انسان تیار کیے جنہوں نے اپنی زندگی تعلیم، تحقیق، جستجو میں صرف کردی، اور آج 14 سو سال بعد بھی ہم ان عظیم ہستیوں کا جنہیں صحابہ کرام کا درجہ حاصل تھا، کا بار احسان اٹھائے ہوئے ہیں۔ جس نے ہمیں علم کے خزانے اور سمندر عطا کیے، اور آج بھی ہم ان چشموں سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
سید مودودیؒ نے جب تحریک اسلامی کا احیاء کیا تو ان کے پیش نظر بھی ایسے ہیرے تراش کرنے کا کام تھا، وہ خود بھی صحافی، مبلغ، سیرت نگار، محقق، صاحب تفسیر، بہترین نثر نگار تھے، ا س لیے ان کے آس پاس بھی ایسے ہی شجر سایہ دار لگے، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا منظور نعمانی، نعیم صدیقی، پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور پروفیسر خورشید احمد، ملک غلام علی، سید اسعد گیلانی، مولانا ماہر القادری، میاں طفیل محمد، کتنے نام ہیں، جو اس کار خیر میں حصہ لیتے رہے، یہ دور فکر و فاقہ کا دور تھا، لکھنے والوں کو نہ آج جیسی سہولتیں میسر تھیں، معاوضہ تو درکنار کوئی چھاپنے پر بھی تیار نہ ہوتا تھا، ابلاغ کے تمام ذرائع پر بائیں بازو کی بہت مضبوط گرفت تھی، اسی قافلہ میں محمود فاروقی اور خالد فاروقی کا نام بھی شامل ہے، دونوں بھائی سید ابواعلیٰ موددی کے جانثار سپاہی تھے، اور دونوں کا اوڑھنا بچھونا لکھنا پڑھنا، درس و تدریس ہی تھا۔ یہ لوگ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ محمود فاروقی کو ’’سیکولر ادبی صنم خانوں کا محمود غزنوی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا، کیونکہ انہوں نے ادب میں مقصد کو ہمیشہ مقدم رکھا، ان کی تحریر میں ایک چاشنی ہے، جو بھی ان کی تحریر پڑھتا ہے، اس کا اسیر ہو جاتا ہے، میں نے جب ان مضامین کو پڑھنا شروع کیا تو یقین مانیے، میں اس کتاب میں کھو کر وقت گردش کو بھی بھول گیا، ان مضامین کو آپ کہیں سے شروع کریں، آپ اس تحریر کی لذت میں ڈوب جائیں گے۔ قصہ آدم سے لے کر اس دنیا میں آنے والے پیغمبروں کے واقعات کو جس انداز میں لکھا ہے، وہ ایسا ہے کہ آپ کے ذہن پر یہ واقعات نقش ہوجائیں، سب سے بڑھ کر اس قصہ گوئی میں تاریخ، واقعات، اور قرآن کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، قرآنی آیات کے حوالے جابجا ہیں۔ جو اس کی علمیت اور اہمیت کو دوچند کردیتے ہیں۔ سب سے خوبصورت قصہ سیدنا یوسفؑ کا ہے، جس میں فراعین مصر کی پوری تاریخ سمودی گئی ہے۔ یہ معلومات کس محنت سے حاصل کی گئی ہوں گی۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت نہ تھی۔
محمود فاروقی ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہوسکتے تھے، اللہ نے ان کی تحریر میں زبان و بیان کی دلکشی عطا کی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ ادب میں مقصدیت کو اولیت دی، ورنہ ذہنی مجرم، بساطی باڑہ۔ پڑاؤ امرت رس اور تاباں سیریز کے افسانے انہیں صف اول کے افسانہ نگاروں میں شمار کراتے۔ ان کے ان افسانوں اور کہانیوں کو بھی مجموعے کی شکل میں سامنے آنا چاہیے۔
میں شاہد فاروقی، مشہود فاروقی، اور مسعود فاروقی کو اس شاندار کام پر مبارک باد دیتا ہوں، اور اپنی اس تجویز کو دہراتا ہوں کہ آج کل سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کا دور ہے، کتابوں کی شکل بدل رہی ہے۔ تحریری کتابوں کی جگہ بولتی کتابیں لے رہی ہیں۔ فاروقی برادران کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خالد فاروقی اور محمود فاروقی کی تحریروں کو صوتی شکل میں یو ٹیوب پر لانے اور جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ یوں ایک زمانہ ان کی تحریروں سے آشنا بھی ہوگا اور یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہوگا کہ نوجوان نسل ان کے پیغام سے فیض یاب ہوگی۔