بلدیاتی الیکشن وقت کی اہم ضرورت

578

اے ابن آدم کراچی کارواں میں حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے تمام مسائل کو اُجاگر کیا، جس میں بلدیاتی الیکشن کا بھی اہم مطالبہ تھا، کیوں کہ پیپلز پارٹی کراچی کے مسائل کے حل میں ناکام ہوچکی ہے۔ لہٰذا وہ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے ڈرتی ہے کیوں کہ بلدیاتی مسائل بھی وہ خود ہی حل کرنا چاہتی ہے جو ناممکن ہے۔ شہر کی تباہی تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے، اب تک کے پی کے اور بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں آواز تو آرہی ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کروانے کے لیے راضی ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے ان عظیم ترین شہروں میں ہوتا ہے جس نے صنعتی و تجارتی میدان میں انتہائی کم وقت میں لازوال ترقی کی۔ اس ترقی کے ثمرات ہیں کہ شہر نے پاکستان کی معیشت کا 70 فی صد اور 4 کروڑ سے زائد آبادی کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ دنیا میں اس سطح کے شہروں کی تاریخ سیکڑوں سال پر محیط ہے لیکن کراچی نے یہ شاندار ترقی محض پونے دو سو برس میں کی۔ انگریزوں نے جب اس پس ماندہ قصبے کے بے یارومددگار مکینوں کو شہری سہولتوں کی فراہمی اور چند جھونپڑیوں پر مشتمل گائوں کو ٹائون پلاننگ کے تحت خوب صورت شہر آباد کرنے کی شروعات کیں تو ان کو ایک ادارے کا قیام عمل میں لانا پڑا۔ وہ کنزرویسی بورڈ تھا جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بنیاد بنا۔ یوں بلدیہ کے قیام سے کراچی شہر نے ترقی کا سفر شروع کیا اور آگے چل کے اس 176 سالہ سفر میں ایک بے ہنگم اور بنیادی ضروریات سے محروم ساحلی قصبے نے کبھی ملکہ ٔ مشرق اور کبھی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ کراچی نے اس کے علاوہ دیگر اعزازات بھی حاصل کیے مگر وہ سب قصہ ماضی بن چکے۔ البتہ تیز رفتار اضافہ آبادی کا اعزاز 1700 سے آج 2022ء میں بھی یہ اس شہرکا طرئہ امتیاز ہے جس کی وجہ کراچی کا موسم، محل وقوع اور جغرافیائی صورت حال ہے۔ ساحل سمندر اور علاقے کی واحد محفوظ بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہر دور میں لوگوں کو وسائل میسر آتے رہے اور یہ شہر امیر و غریب کی یکساں توجہ حاصل کرتا رہا۔
ملک کے کسی کونے سے جو ایک بار کراچی آتا ہے پھر جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ آج بے شمار تارکین وطن کراچی میں موجود ہیں۔ آج وسائل کم اور لوگ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بلدیہ کے پنشنرز آج بے حد متاثر ہیں ان کو ان کے واجبات تک نہیں مل پارہے۔ وقت پر پنشن بھی نہیں ملتی، خیر عبدالستار افغانی، ڈاکٹر فاروق ستار، فہیم الزماں خان، نعمت اللہ خان، مصطفی کمال، وسیم اختر کے دور کے علاوہ بھی ایڈمنسٹریٹرز آتے جاتے رہے۔ نعمت اللہ خان کے دفتر کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار پرچی والوں کے کام فوری کرتے تھے۔ مصطفی کمال صاحب تو صبح دفتر آتے ہی نہیں تھے۔ دفتر بند ہی ملتا تھا، ہاں کام بہت کرتے تھے، شام سے لے کر رات تک ہر کام کی خود نگرانی کرتے تھے۔ فہیم الزماں ایک قابل اور محنتی شخص تھے وہ بھی کام کرتے تھے متحدہ نے اپنے بے شمار کارکنوں کو بلدیہ میں نوکری دی۔ آج ان کے لگائے ہوئے لڑکے بڑے بڑے افسر بن گئے ہیں۔ ان میں کچھ اہل ثابت ہوئے اور کچھ بلدیہ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کا دور کام کا دور تھا، کراچی کی شکل بدل گئی تھی مگر متحدہ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی چپقلش نے کراچی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اب آنے والے بلدیاتی الیکشن ان پرانی سیاسی جماعتوں کے
لیے یوم حساب سے کم نہیں ہوگا۔ اس مرتبہ عوام کی نظریں جماعت اسلامی پر لگی ہیں۔ اس مرتبہ سابق چیف جسٹس جناب وجیہ الدین احمد کی سیاسی پارٹی عام لوگ اتحاد پارٹی زبردست تیاری کررہی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی جماعتیں اور آزاد امیدوار بھی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں سب سے زیادہ 1310 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں 9 سال کے عرصے کے بعد بلدیاتی الیکشن ہوئے سیاسی کشیدگی کے ماحول میں ایک خوش آئند عمل ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹروں کی بھاری اکثریت نے سیاسی جماعتوں کے بجائے آزاد امیدواروں کے حق میں زیادہ دلچسپی لی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آزاد امیدوار پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے 34 میں سے 32 اضلاع میں اتوار کو 4456 حلقوں میں پولنگ ہوئی۔ باقی حلقوں میں 1584 امیدوار پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا مقابلے کے بغیر منتخب ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یا تو وہ امیدوار بہت بااثر تھے یا کسی دوسرے نے الیکشن لڑنے میں دلچسپی ہی نہیں لی۔ ماضی میں ایک مرتبہ ایسا کچھ کراچی میں بھی دیکھا گیا ہے۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو ایک مرتبہ کراچی میں ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا تو 3 اور 4 ہزار ووٹ لے کر لوگ MNA اور MPA بن گئے تھے۔ اس وقت کراچی والوں نے ایم کیو ایم کا بھرپور ساتھ دیا تھا مگر ایم کیو ایم نے بھی عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔مجھے محسوس یہ ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی یہ بلدیاتی الیکشن بھاری اکثریت سے جیتے گی بس الیکشن صاف و شفاف ہونے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اپنا کارڈ استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی مگر اس مرتبہ پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم حقیقی بھی اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کا کیا پروگرام ہے۔ بلوچستان کے الیکشن ملکی سیاست کے منظرنامے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے لمحہ فکر ہے کہ ووٹروں نے سیاسی جماعتوں پر کم اعتماد کیا ہے۔
اس وقت پیپلز پارٹی نے بلدیہ کو بے اختیار بنایا ہوا ہے جب کہ اس کے خلاف ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی ہائی کورٹ میں مقدمہ داخل کرچکی ہے جس کی ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔ عدالت نے سیکرٹری بلدیات سے جواب طلب کیا پھر جواب طلبی کے لیے ان کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔ ابن آدم یہ کہتا ہے کہ پہلے عدالت بااختیار بلدیاتی الیکشن کے جلد فیصلہ سنائے نہیں تو یہ بلدیاتی الیکشن بے معنی ہوںگے۔ کیوں کہ جب وہ بااختیار ہوں گے تو نچلی سطح پر عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی سیاسی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ میں نے وہ کراچی بھی دیکھا ہے کہ صبح 7 بجے علاقوں میں صفائی شروع ہوجاتی تھی۔ آج تو صفائی کا نظام ختم ہوگیا ہے۔ غریب ملازمین کی تنخواہوں سے افسران کی عیاشیاں چلتی ہیں۔ بلدیہ کے پاس ضرورت کی ہر مشینری موجود تھی مگر آج سب برباد پڑی ہیں۔ مال مفت دل بے رحم بلدیہ اور ٹائون کے دفاتر کے حال جا کر دیکھ لیں کوئی ایک ملازم وقت پر نہیں آتا، جگہ جگہ پان اور گٹکے کے نشان نظر آتے ہیں۔ ہم کیا اپنے گھروں میں بھی اس طرح کی گندگی کرتے ہیں، بالکل نہیں کرتے، مگر افسوس اپنے علاقوں کو دفاتر کو ضرور گندا کرتے ہیں۔ 74 برس میں ہم اپنی قوم کا شعور بیدار نہ کرسکے۔ میرے استاد 2 کتابوں کے مصنف محمد محسن یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔