شہید حرمت ِ قرآن… طاہر جمال

744

۔29 مئی 2005ء جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے زیر اہتمام ایک تربیتی نشست کا اہتمام ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ تحریک غلامانِ مصطفیؐ کو کس طرح متحرک کیا جائے تا کہ اس الہامی کتاب کا تحفظ کیا جاسکے۔ جو اللہ ربّ العالمین نے حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے نبی محترمؐ کے قلب اطہر پر نازل کی۔ یہ وہ دور تھا جب گوانتا ناموبے میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے حوالے سے مظاہرے ہورہے تھے کہ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کے نفاق کا فائدہ اُٹھا کر قرآنِ کریم کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے تھے۔ امریکا نے گوانتا ناموبے میں بالخصوص افغانستان اور دُنیا کے دیگر ممالک سے بالعموم مجاہدین ِ اسلام کو چن چن کر قید میں رکھا ہے کہ ان کا جوشِ ایمانی عوام الناس کے دلوں کی دھڑکن نہ بن جائے اور یہ آتش سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کے ایوانوں کو بھسم نہ کردے۔ تربیت مکمل ہوئی اور لوگ اللہ کی زمین میں پھیل کر اپنے اصل مقصد حیات کی تکمیل کے لیے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ انہی میں لانڈھی کا وہ نوجوان جسے طاہر جمال کے نام سے ہم اور آپ جانتے ہیں شامل تھا۔
طاہر جمال اس روایت کا امین تھا جو محمد بن قاسم نے قائم کی کہ ایک نوجوان لڑکی کی فریاد پر 17 سالہ یہ نوجوان راجا داہر کی فوجوں سے ٹکرا گیا اور یوں اسلام کا نور برصغیر پاک و ہند میں اپنی کرنیں بکھیرنے لگا۔ طاہر جمال نے بھی بھارتی ظلم و استبداد کے ہاتھوں بیوہ ہونے والی عورتوں اور یتیم بچوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مجاہدین کے ہمراہ جموں کشمیر میں اپنی حربی سرگرمیاں انجام دیں۔ شوق شہادت سے سرشار یہ نوجوان ہندوستانی فوجوں سے نبرد آزما رہا مگر شہادت کسے اور کہاں نصیب ہوتی ہے، یہ مقدر کی بات ہے۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ نے کہا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد میں شہادت نصیب ہوتی ہے تو مجھے دیکھیں کہ بے شمار جنگوں میں شرکت کے باوجود اپنے گھر کے بستر پر فرشتہ ٔ اجل کا منتظر ہوں۔ یہی کچھ اس نوجوان کے ساتھ بھی ہوا کہ ہزاروں میل دور اللہ کے اس حکم کی پاسداری میں کہ مظلوم پکارتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ایمان والوں کا ایسا گروہ بھیجو جو ہمیں اس بستی کے ظالموں سے نجات دلائے، پورا اُترا۔ پھر اس کی شہادت کی خبر آئی اور غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا ہوئی۔ کیا بات اس نوجوان کی کہ جس کی زندگی میں اس کی مغفرت کی دعا کی گئی مگر دعا تو ہر ایک کے لیے ہوتی ہے۔ جنازے کی دعا کے مفاہم و مطالب دیکھیں تو آغاز کچھ یوں ہے کہ ’’اے ہمارے ربّ! معاف کردے ہمارے زندوں کو‘‘ کیا دُعا ہے۔ جو نبی محترمؐ نے ہمیں سکھائی اور دعا کا اختتام بھی زندوں کے لیے کہ ’’ہمارا خاتمہ ہو تو ایمان پر‘‘۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
شہادت کے اس مشتاق سے میرا تعارف اس کی شہادت سے دو سال قبل رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوا تھا۔ یہ رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کے اختتامی ایام تھے۔ مسجد معتکفین کی فہرستیں مرتب کی جارہی تھیں کہ گزشتہ کئی سال سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اس عبادت کے لیے مسابقت کی راہ پر گامزن ہے۔ مساجد کی انتظامیہ پریشان کی درخواست دہندہ زیادہ اور جگہ کم ہوتی ہے مگر مشتاقان اعتکاف اُمید بھری نگاہوں سے مساجد کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ یہی حال T ایریا کورنگی 2 محمدی مسجد اہلحدیث میں بھی تھا کہ چھوٹے بھائی نے کہا کہ انتظامیہ سے سفارش کریں کہ ہمارے دوست جمال طاہر کو تو جگہ دے ہی دیں۔ میں نے پوچھا کہاں رہتے ہیں؟ کہنے لگے لانڈھی 3½، ارے بھائی اتنی دور یہاں آکر کیوں بیٹھنا چاہتے ہیں؟‘‘ طاہر جمال نے بتایا کہ اگر گھر کے قریب بیٹھوں گا تو دوست احباب کی بڑی تعداد ملنے آتی رہے گی، عبادت میں حرج ہوگا۔ یکسوئی اور خشوع و خضوع کے حصول میں کوشاں ہوں اور پھر طاہر جمال اعتکاف میں بیٹھ گئے۔ طاہر جمال کشمیر میں شریک جہاد رہے تو پھر ان کی دھرتی نے انہیں پکارا کہ اب یہاں آجائو۔ یہاں آئے تو ایک ایسے گھرانے میں ان کی نسبت طے ہوئی کہ جہاں ایک نوجوان شہادت پاچکا تھا اور یوں شہید کی بہن مجاہد کی شریک حیات بن گئی۔ بظاہر پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے مگر کیسا؟ نام نہاد روشن خیال یہود و نصاریٰ کا غلام، ہنود سے ڈرنے والا کہ جہاں کے حکمران بزدل اور ناکارہ ہیں۔ ایم کیو ایم کی شکل میں ایسا سیاسی کلچر فروغ پارہا ہے جو دہشت گردی اور قتل و غارت گری پر یقین رکھتا ہے۔ بات یہیں تک نہیں بلکہ غلامانِ مصطفیؐ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ان کا مقصد حیات ہے۔ لانڈھی کی وہ آبادی جو پہلے ایم کیو ایم حقیقی کے ظلم و استبداد اور خود ساختہ ریاست کی علامت تھی۔ شاطران حل و عقد کی سازشوں سے ایم کیو ایم مجازی کو دے دی گئی کہ ظلم و دہشت دونوں کا یکساں، اسلامی شعار کی راہ میں دونوں مزاحم تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا دونوں کا مقصد۔
اور 29 مئی 2005ء کی شام طاہر جمال تربیت مکمل کرکے مستقبل کے خواب نگاہوں میں سجائے اپنے گھر کی جانب گامزن تھے کہ ان کاراستہ روک لیا گیا۔ فائرنگ اور پھر طاہر جمال کی شہادت، یہ خبر آئی تو کراچی بھر کے نوجوان جوق در جوق لانڈھی نمبر 4 پولیس گرائونڈ میں جمع ہوئے، آج غائبانہ نماز جنازہ نہیں بلکہ جنازے کو سامنے رکھ کر نماز ادا کی جانی تھی۔ نوجوان مشتعل تھے، وہ مین شاہراہ پر نماز پڑھنا چاہتے تھے مگر امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے نوجوانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ یہ ظلم کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ غلامانِ مصطفی کی شہادت ہماری راہوں کو نہیں روک سکتی۔ ہم قرآن کریم کے ساتھ ہونے والی بے حرمتی پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے اور پھر اسلم مجاہد آخری بار گویا ہوئے کہ ہم آج اشکبار ہیں۔ ہمارے دل دکھے ہوئے ہیں کہ انہی گلیوں میں مرزا لقمان بیگ کا خون بہایا گیا۔ اور شہید کا لہو رنگ لایا۔ ظلم و استبداد کا ایک دور ختم ہوا۔ ظالم کیفر کردار کو پہنچے۔ آج حرمت قرآن مہم کے ایک سرگرم کارکن کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مگر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ قرآن کی حرمت، پاکستان میں اسلامی انقلاب اور شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مگر محض ایک گھنٹے بعد اسلم مجاہد کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔