ملک میں ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بازگشت پوری قوت سے سنائی دے رہی ہے۔ حکومتی منظر بدلتے ہی امریکن پاکستانیوں کے ایک وفد کا دورہ ٔاسرائیل اور اس میں سرکاری ٹی وی کے ایک اینکر کی شمولیت نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ اس وفد میں ایک ایسی خاتون بھی شامل تھیں جن کی موجودہ حکومتی شخصیات کے ساتھ تصویریں ریکارڈ پر ہیں۔ ملک میں ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ اسرائیل کے صدر آئزک ہارزوگ نے یہ تسلیم کیا کہ گزشتہ دنوں پاکستانیوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی ہے۔ یہ اسرائیل اور مسلمان دنیا کے درمیان تعلقات میں بڑی تبدیلی ہے۔ اسرائیلی صدر کی اس تصدیق کے بعد پاکستان میں جاری بحث مزید گرم ہوگئی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک جلسے میں کہا حکومت امریکی دبائو پر اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہے۔ اس کے بعد متعدد مواقع پر انہوں نے کہا کہ میری حکومت پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دبائو تھا مگر حکومت نے یہ دبائو قبول نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پیغام دیا گیا کہ اپنے ملک کی فکر کرو۔ حکومتی نمائندوں بالخصوص وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس بات کی تردید کی کہ اسرائیل جانے والے وفد کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ دفتر خارجہ کی طرف سے بھی وضاحت کی گئی کہ اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ اس تردید سے وقتی طور پر معاملہ ٹھنڈا تو پڑگیا مگر قومی سیاست کے تالاب میں ایک ارتعاش پیدا کر گیا۔
پاکستان میں وقفے وقفے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ یوں سر اُٹھاتا ہے گویا کہ پاکستان کی سیاست، معیشت اور سفارت کو ایک ہی مسئلہ درپیش ہو اور وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا قیام ہے۔ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اس کے بعد میڈیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی فیوض وبرکات گنوائی جاتی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حالت زار کی وجوہات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہ ہونا سرفہرست ہے۔ یوں اسرائیل کو پاکستان کے موجودہ مرد بیمار کے چند ایک مسیحائوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ سال دوسال بعد شروع ہونے والی بحث کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کرنے سے زیادہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے موقف کی حساسیت کو ختم کرنا اور اسے عوام کے لیے قابل ہضم اور قابل قبول بنانا ہے۔ اب یہ بحث اتنی بار اور اتنے تواتر سے ہورہی ہے کہ لوگوں کے لیے یہ کوئی حساس موضوع نہیں رہا۔ رفتہ رفتہ لوگ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے گھسے پٹے ماٹو کے انداز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کو زیادہ قابل اعتراض نہیں سمجھتے۔ اس موضوع کے حق میں بے خوفی سے دلائل دینے والوں میں بااثر طبقات اور افراد شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اس کے بعد کم وبیش اسی نوعیت کے مسئلے یعنی کشمیر پر دبائو آنا لازمی ہے۔ جس طرح فلسطینیوں کی قربانیوں اور خواہشات کو نظر انداز کرکے روزی روٹی کے چکر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے بلکہ یہی فارمولہ اور یہی دلائل بھارت سے تعلقات کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ جن کا لب لباب یہ ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات بحال کرے تو اس کی معیشت سنبھل سکتی ہے اور اس سفر میں کشمیر کو بھولنا لازمی شرط ہے۔
پاکستان کے لیے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی طرز پر ایک ایسا سمجھوتا تیار ہے جس میں پاکستان کو سری نگر پر بھارت کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی فورموں پر بھی اس مسئلے کا ذکر کرنے سے گریز کا راستہ اپنانا ہوگا اور عملی طور پر کشمیریوں کی مزاحمت کے ساتھ کوئی ربط وتعلق نہیں رکھنا ہوگا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں فلسطینیوں کی مزاحمت کے قانونی فریق مصر کو جس کی جغرافیائی حدود بھی فلسطین سے منسلک تھیں اسی انداز سے پورے معاملے سے الگ کیا گیا تھا۔ یہ فلسطینیوں کی مزاحمت کے کمزور اور ان کے سفارتی، عسکری اور سیاسی طور پرکمزور ہونے کا نقطہ ٔ آغاز ثابت ہوا۔ جس کے بعد اردن بھی فلسطین کے مسئلے کا باضابطہ قانونی فریق تھا اسے بھی معاملے سے الگ کیا گیا۔ یوں فلسطینی عوام مکمل طور پر اسرائیل کے رحم وکرم پر آگئے۔ اس کے بعد سے اسرائیل اب فلسطینیوں کا وجود ہی مٹانے کے درپہ ہے۔ اس لیے جب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں تو کشمیر کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں کیونکہ بیت المقدس اور سری نگر کی قسمت، دکھ، تاریخ اور حالات کی لکیروں میں گہری مماثلت ہے۔ دونوں کے دکھوں کا سفر بھی ایک ہی سال شروع ہوا اور پھر دونوں خطوں کے عوام ہنسنا بھولتے چلے گئے اور اب تو اُداسی مستقل طور پر ان کے دالانوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔